امن کا پیغام بانٹتا ہے اسلام
مسرور احمد قادری
دورِ حاضر میں جسے دیکھو وہ اپنے منہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلاظتیں اگلتا رہتا ہے…
مذہب اسلام کو دہشت گرد، ظلم و تشدد کو فروغ دینے والا اور انتہا پسند لوگوں کا مذہب ثابت کرنے میں اغیار نے کوئی قصر باقی نہ رکھی ہمارے اسلامی سپہ سالاروں کا ظالم و جابر چہرہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا اہلِ اسلام کے اوپر دہشت گردی کا جھوٹا ٹائیٹل لگا کر بدنام کرنے کی گھنونی سازشیں کی گئیں لیکن دشمنِ اسلام یہ بھول چکے ہیں کہ سچ سر چڑھ کر بولتا ہے سچ کو چھپانے کی لاکھ کوشیشیں کی جائے لیکن سچ ہمیشہ دوپہر کی دھوپ کی طرح چمکتا رہتا ہے….
مذہبِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ امن و سلامتی کا درس دیا ہے ہر محاذ پر امن و امان کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیروں کے ظلم کا جواب دیا گیا ہے…
مسلمانوں کی امن پسندی اور کفار کے ظلم و تشدد کا اندازہ حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ اور ماضی کے نہایت ظالم شخص چنگیز خان کے اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے…..
چنگیز خان کہتا ہے کہ ” لوگ سمجھتے ہیں میں نے آج تک کسی سے محبت نہیں کی پر لوگوں کو کیا پتا کہ میں نے کس سے محبت کی ہے…؟
مجھے بھی محبت ہوئی میں قارون و ہامان اور نمرود و شدداد سے محبت کرتا ہوں…
ایک جگہ کہتا ہے کہ” سب سمجھتے ہیں میں بہت ظالم اور بے رحم شخص ہوں میں نے آج تک کسی پر رحم نہیں کھایا پر بولنے والوں کو کیا معلوم کہ جب ایک شیر خوار بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا اور اس کی ماں اپنے بچے کو بچانے کے لئے فریاد لگا رہی تھی اس وقت میں نے اپنے نیزے کے ذریعے اس بچے کو دریا سے نکالا اگرچہ میرا نیزہ لگنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی پر میں نے انسانی فرض تو ادا کیا….”
چنگیز خان کو محبت ہوئی بھی تو ان سے جو اپنے وقت کے ظالم حکمران تھے جن کی ظلم و بربریت سے ہر شخص خوف کھاتا تھا اور اس نے اپنی رحم دلی کا ثبوت اپنے نیزے سے دیا اس سے آپ اس کی رحم دلی اور امن پسندی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں….
اب آئیے تاریخ اسلام کا وہ روشن واقعہ ملاحظہ کریں جس سے محبت اور امن و شانتی کو برقرار رکھنے کا پیغام ملتا ہے….
فاروقِ اعظم کے دورِ خلافت میں جب مصر کا دوسرا بڑا شہر اسکندریہ مسلمانوں نے فتح کر لیا تو اس کی خوشخبری لشکر کے سپہ سالار حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کو دی گئی آپ خوشخبری سنتے ہی رب العالمین کا شکر بجا لائے اور اسکندریہ چلنے کی تیاری کا حکم دیا ساز و سامان تیار ہونے لگے، خیموں کو اکھاڑا جانے لگا آپ نے بھی اپنا خیمہ اکھاڑنے کا حکم دیا اچانک خیمے کے کنارے جانب نظر پڑی تو آپ نے کہا اس خیمے کو نہ اکھاڑا جائے اور یہیں چھوڑ دیا جائے….
دوسرے لوگ سوچنے لگے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے خیمہ اکھاڑنا عام بات ہے پھر امیر لشکر نے اس خیمے کو چھوڑنے کے لئے کیوں کہا اور سوالیہ نگاہوں سے اپنے سپہ سالار کو دیکھنے لگے…
تب حضرتِ عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے اشارہ کرکے فرمایا کہ خیمہ کے کنارے کبوتر نے اپنا آشیانہ بنا رکھا اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ” یہ کبوتر ہمارے مہمان ہیں خیمہ گرانے سے ہمارے مہمان کو تکلیف نہ ہو اس لئے اِس خیمہ کو یہیں چھوڑ دیا جائے”
اللہ اکبر صرف ایک کبوتر اور اس کے بچوں کی آرام و آسائش کو ملحوظ رکھتے ہوئے پورے خیمے کو وہیں چھوڑ دیا گیا دنیا کی طاقتور قومیں شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشتی اور یہاں حال یہ ہے کہ ایک پرندے سے بھی محبت کی جا رہی ہے اور کیوں نہ ہو مذہب اسلام کے ماننے والے ہامان و قارون، نمرود و شدداد سے تھوڑی محبت کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے عظیم رہنماﷺ سے محبت کرتے ہیں جس نے پورے عالم کو امن و شانتی کا پیغام دیا ہے……