مختلف مذاہب میں قربانی کا تصور
محمد چاند رضا مصباحی
کچھ چیزیں مشترک بین المذاہب رہی ہیں مثلا تصورخدا، نجات دہندہ ،دعا اور اپنے خالق کی خوشنودی کے لئے قربانی کا تصور_ ان کو سر انجام دینے کے طریقۂ کار میں اگرچہ اختلاف رہا ہے لیکن نتائج اور مقاصد میں سب متفق ہیں یعنی اپنے خالق و مالک، نجات دہندہ اور دیوی، دیوتا وغیرہ کا قرب حاصل کرنا ان میں عملاً قربانی اور دعا زیادہ اہمیت کے حامل ہیں _
قربانی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا تصور ہر مذ ہب اور امت میں رہا ہے_ جیسا کہ اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا: ٫٫و لكل امة جعلنا منسكا ،،”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر فرمائی” اسلام بھی قربانی کا تصور پیش کرتا ہے لیکن اسلام کا تصور قربانی سب سے جدا ہے جو ایسے طریقے پر قربانی کا حکم دیتا ہے کہ کسی کے حقوق ضائع نہ ہوں_ اسلام میں مروجہ قربانی سے مراد مخصوص جانور کو مخصوص ایام میں بہ نیت تقرب الہی وثواب ذبح کرنا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں اسے قربا ن بھینٹ، بلوٹان، اور تھوسیا جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے_ عام طور پر فریضۂ قربانی کی ادائیگی کے لیے جانوروں اور اموال کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ ادوار میں بعض آدم خور، وحشی قبائل اور دیگر مذاہب میں انسانوں کو دیوتا کے چرنوں میں بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا جبکہ اسلام میں مخصوص ایام میں عمدہ جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جس کا مقصد حصول رضائے الہی، گناہوں کی معافی ،سنت ابراہیمی کی پیروی اور حکم خداوندی کی تکمیل ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے صحابۂ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ حضور نے ارشاد فرمایا: "تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے” ،لوگوں نے عرض کیا؟ یارسول اللہ! ان میں کیا ثواب حاصل ہو گا فرمایا: "ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے” پھر عرض کیا اون کا کیا حکم ہے فرمایا” اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے”_
اس کے برعکس دیگر مذاہب میں محض دنیاوی امور کے حصول ,دیوتاؤں کی خوشنودی اور موسموں میں تبدیلی کے لئے قربانی کی جاتی ہے علاوہ ازیں بعض مذاہب میں جاندار کی قربانی کرنا منع ہے مثلاً بدھ مت، ہندومت اور زرتشت ،جب کہ ہندو جانوروں کا ذبح کرنا حرام سمجھتے ہیں لیکن اپنے دیوتاؤں کے قدموں میں انسانوں کو بھینٹ چڑھانا قابل فخر سمجھتے ہیں_
مشرکین مکہ بھی قربانی کرتے تھے اور گاہے بگاہے اپنے جانور خانۂ کعبہ میں بھینٹ چڑھایا کرتے تھے _ان کے نام بحیرہ, سائبہ, وصیلہ اور حام رکھتے اس کے ساتھ ساتھ نظر کے جانور بھی قربان کرتے_
یہود بھی قربانی کے قائل تھے جبکہ انہیں اپنے پیغمبروں کی جانب سے قربانی کا حکم ہوتا تو آبادی سے باہر اپنے جانوروں کو اونچی جگہ پہاڑ غیرہ پر لے جا کر چھوڑ دیتے تھوڑی دیر میں آسمان سے آگ اتر کر راکھ کر دیتی جو اس بات کی علامت ہوتی کہ قربانی قبول کر لی گئی _
لیکن سب سے پہلے قربانی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹے ہابیل اور قابیل نے اپنے اپنے طور پر کی جس کی منظر کشی قرآن نے اس انداز میں کی ہے "وتل علیھم نبا ابنی آدم بالحق اذ قربا قربانا فتقبل من احدهما و لم يتقبل من الآخر قال لأقتلنك قال إنما يتقبل الله من المتقين "ان میں سے ہابیل کی قربانی کو آگ کھا گئی اور قابل کی چھوڑ گئی بایں طور امم سابقہ میں قربانی کے سلسلے جاری رہے_
قربانی در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لئے بھی باقی رکھی گئی ہے حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی قربانی کا حکم دیا گیا ارشاد ہوا "فصل لربك وانحر” ( اے محبوب ! اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں )حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس ایت کریمہ کو اپنا ہدف اصلی بنا کر امت مسلمہ کو احکام اضحیہ سے آگاہ فرمایا اور ساتھ ہی قربانی نہ کرنے والوں کو تاکید فرمائی کہ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے _
ان تمام دلائل و براہین سے عیاں ہو جاتا ہے کہ انسانیت کی ابتدا میں ہی قربانی بطور عبادت زندگی کا حصہ بنا دی گئی تھی اسی لیے حضور نے ارشاد فرمایا کہ” جانور کو خوش دلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربان کرو قیامت کے دن اپنے بالوں ، سینگوں اور خروں کے ساتھ آئیں گے نیز یہ بھی رشاد فرمایا قیامت کے دن یہ سواریاں بن کر پل صراط پر تمھیں پار لگائیں گے کیونکہ یہ تقرب الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہیں_ اللہ تعالی فرماتا ہے'” لن ينال الله لحومها ولا دماؤها ولكن یناله التقوى منكم كذلك سخرها لكم لتكبرو اللهعلى ما هداكم و بشروا المحسنين "( اللہ کو ہر گز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک ضرور بار یاب ہوتی ہے اس نے اسی طرح ان کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر بلند کرو اور اے نبی ! بشارت دے دیں نیکو کار لوگوں کو) (الحج ) اللہ تعالی ہمیں سنت ابراہیمی کو بحسن و خوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین بجاہ سید النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد چاند رضا مصباحی
متعلم: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی الہند
جماعت: فضیلت