رمضان المبارک اور ذکر و اذکار
از: محمد مقتدر اشرف فریدی
اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے محبوب، نبی اکرم، مالک خشک و تر، قائد بحر و بر رسول اعظم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کے توسّل سے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، اگر ہم اس کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو نہیں کر سکیں گے- جیسا کہ اللہ کریم کا فرمان ہے: و اِن تَعُدُّو نِعمَةَاللهِ لا تُحصُوھَا(سورۃ النحل آیت نمبر: 18) ترجمہ: اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم نہیں کر کر سکتے- اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم نے ان گنت نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے، یہ اللہ کریم ہی کی ذات ہے کہ بن مانگے وہ اپنے بندوں کو نعمت کثیرہ سے نوازتا ہے- ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا شکریہ نعمتوں کی قدر کے ذریعہ کریں- اللہ کریم نے ہمیں جو نعمیں عطا فرمائیں ہم اپنے لسان، قلب اور اعضا کے ذریعہ اس کا شکر بجا لائیں- اللہ کریم فرماتا ہے:
لَئِن شَكَرتُم لأَزِیدَنَّکُم و لَئِن کَفَرتُم اِنَّ عَذَابِی لَشَدِید
(سورۂ ابراھیم، آیت نمبر:7) ترجمہ: اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور دوں گا، اور اگر نا شکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے-
اللہ کریم کی عطا کردہ بےشمار نعمتوں میں سے رمضان کا متبرّک و مقدّس مہینہ ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم الشان نعمت ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں جنت کے سارے ابواب کھول دیے جاتے ہیں، جہنّم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، شیاطین مقیّد کر دیے جاتے ہیں- یہی وہ مہینہ ہے کہ جس کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنّم سے خلاصی کا ہے- اس میں ہر لمحہ رحمت و مغفرت کی موسلا دھار بارشیں نازل ہوا کرتی ہیں، اس ماہِ متبرّک کی ہر ساعت قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں ایک بندۂ مومن کے لیے بے شمار دینی و دنیوی منافع لیے ہوئے ہیں-
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و سلّم نے ارشاد فرمایا: جب رمضان شروع ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں- (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنّت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اور جہنّم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں- (شعب الایمان للبیھقی، فضائل شھر رمضان، جلد 3، الرقم: 3597) نیز آقائے دو عالم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و سلّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں-( صحیح بخاری، کتاب الصوم، جلد 1، الرقم 38)(صحیح مسلم، جلد1، الرقم: 760)
یقینا رمضان کا متبرّک مہینہ اللہ کریم کے جانب سے اپنے بندوں کے لئے ایک عظیم نعمت اور فضل عظیم ہے، ہمیں جان و دل سے اس متبرّک، منبع خیر و برکت مہینے کی قدر کرنی چاہئے- عبادت و ریاضت، ذکر و اذکار کی کثرت، نماز با جماعت کا اہتمام و دگر نیک اعمال کے ذریعہ ہمیں اس ماہ مقدّس میں فوز و فلاح کی راہ پہ گام زن ہونے کی مساعئ جمیلہ کرنی چاہئیں- یہی وہ مہینہ ہے کہ اس میں ہر نیک عمل کا ثواب باقی مہینوں سے کہیں زیادہ ہے، ماہ رمضان میں نفل ادا کرنا دوسرے مہینوں میں فرض ادا کرنے کے برابر، اور اس ماہ متبرّک میں ایک فرض ادا کرنا دیگر مہینوں کے ستّر فرائض جتنا اجر و ثواب رکھتا ہے- اور اللہ عزّ و جلّ کا فضل و کرم تو اس سے بھی زیادہ وسیع اور بڑھ کر ہے-
رمضان شریف زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے- اعمال صالحہ در حقیت خدا کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں-آج کے اس ترقی پزیر دور میں تمام تر سہولتیں فراہم ہونے کے باوجود لوگ آشفتہ حالی کے شکار نظر آتے ہیں، طرح طرح کی آسائشیں میسّر ہیں مگر پھر بھی شکوہ کرتے ہیں کہ دل کو سکون نہیں، ہر وقت قلبی اضطراب اور دماغی بے چینی کا شکار رہتے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ در اصل آج ہم دنیوی لہو و لعب میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ ذکر خداوندی کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں، اللہ کریم کے ذکر سے ہم غافل ہو گئے ہیں اس لیے آج ہم مختلف مصائب و آلام سے دوچار ہوتے نظر آ رہیں ہیں، لہذا ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام احوال میں گھروں میں نور کے لیے، آپس میں الفت و محبت کے لیے، پر سکون زندگی کے لیے، آفات سے نجات کے لیے، امراض سے شفا کے لیے، آئینۂ دل کو شفّاف کرنے کے لیے، احوال حیات کو روحانی انقلاب کی مہک سے معمور کرنے کے لیے اور اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے ذکرِ الٰہی کی کثرت کریں- حبِّ الٰہی کی لذّت سے دل کو سرشار کریں، مالک حقیقی کی یاد سے دل کی ویران بستی کو آباد کریں- زندگی کے تمام احوال میں اللہ کریم کے ذکر پر دوام و استمرار اختیار کرنا ایک بندۂ مومن کا ایمانی فریضہ ہے، خاص طور سے رمضان شریف کے متبرّک مہینے میں جہاں تک ممکن ہو ذکر و اذکار کی کثرت کر کے اپنے گناہوں کی بخشش، خوشنودئ مولٰی اور سعادت دارین حاصل کریں- رمضان شریف محبّت کا مہینہ ہے، ہمدردی کے احساسات و جذبات کا مہینہ ہے، نزولِ قرآن کا مہینہ ہے رمضان کا متبرّک مہینہ ذکر و اذکار کا مہینہ ہے- نبی کریم علیہ الصلاۃ و التسلیم کی عادت کریمہ تھی کہ رمضان شریف میں آپ کثرت سے ذکر و اذکار میں مشغول رہتے تھے- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے مروی ہے کہ انہوں فرمایا: کہ جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو اللہ کے رسول صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو جاتا اور آپ نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور آپ اللہ تعالٰی سے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے تھے-(شعب الایمان للبیھقی، فضائل شھر رمضان، جلد 3، الرقم: 3625) ذکر کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اپنے محبوب حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو- در حقیقت ذکر الٰہی ہر عبادت کی اصل ہے، تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے اور عبادات کا مقصود اصلی یاد الٰہی ہے- کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ کی یاد سے خالی نہیں- سب سے پہلی فرض عبادت نماز کا بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ کریم کی یاد کو دوام حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت جاری و ساری رہے- کھانا پینا، اور نفسانی خواہشات کو مقررہ وقت کے لئے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے جس کا مقصد دل کو ذکرِ الٰہی کی طرف راغب و مائل کرنا ہے- روزہ نفس انسانی میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے اور دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے، دل میں پرہیزگاری کا جذبہ پیدا کرتا ہے تاکہ اس میں یادِ الٰہی کا پودا جڑ پکڑ سکے کیونکہ دل جب لذّات نفسانیہ میں مستغرق ہو تو اس میں ذکرِ الٰہی قرار نہیں پکڑ سکتا- اسی طرح خانۂ کعبہ کا حج، قرآن کریم کی تلاوت و دیگر تمام عبادات کا مقصود اصلی ذکرِ خداواندی ہی ہے- ہر عبادت کسی نہ کسی صورت میں یادِ الٰہی کا ذریعہ ہے- اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنّت میں جا بجا ذکر الٰہی کی تاکید کی گئ ہے-
اللہ کریم نے اہل ایمان کثرت ذکر کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یآیُّھَا الذِّینَ آمَنُوا اُذکُرُواللہَ ذِکرًا كَثِيرًا
(سورۂ الاحزاب، آیت نمبر: 41)
ترجمہ: اے ایمان والو تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو)
نیز اللہ عزّ و جلّ نے کثرت ذکر کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"و اُذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَ سَبِّحْ بالْعَشَیِّ وَ الْاِبْکَارِ”
(سورۂ آل عمران، آیت نمبر:41) ترجمہ: اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو-)
اللہ کریم نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان و سکون کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ألَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبَ
(سورۂ الرعد، آیت نمبر: 28) ترجمہ: سن لو اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا روایت کرتی ہیں:
"کَانَ النَّبِيُّ صَلّی اللہُ تَعالٰی عَلَیْہ وَ سَلَّمَ یَذْکُرُ اللہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِه” (صحیح مسلم، جلد 1، الرقم: 373) ترجمہ: حضور نبی اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم ہر وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے-)
وہ لوگ نہایت ہی خوش بخت ہیں جو ماہِ رمضان کے متبرّک مہینے میں اپنے اوقات ذکر و اذکار میں صرف کرتے ہیں، ان پر اللہ کریم کی رحمتوں، برکتوں اور نوازشات کا نزول ہوا کرتا ہے – حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں اللہ تعالٰی کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں اللہ تعالٰی سے مانگنے والے کو نا مراد نہیں کیا جاتا-(شعب الایمان للبیھقی، فضائل شھر رمضان، جلد 3، الرقم: 3627)
یوں تو ذکر نہایت مختصر سا لفظ ہے لیکن اپنے اندر تمام عبادات و معاملات کو سموئے ہوئے ہے، ہر وہ عمل جو اللہ کریم اور اس کے پیارے محبوب آقائے دو عالم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کے حکم کی تعمیل میں ان کی رضا اور خوشنودی کے لیے کیا جائے ذکر ہے- بندے کو ہر حال میں اپنی زبان ذکرِ الٰہی کی چاشنی سے تر رکھنا چاہیے- یقینا ماہ رمضان المبارک اپنے دامن میں ان گنت سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں کے خزانے لیے ہوئے ہے، اس کی سب سے اہم ترین عبادت یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ کریم کی رضا کے لیے روزہ رکھنا ہے- روزہ جس قدر عظیم عبادت ہے اس کے آداب بھی اسی قدر زیادہ ہیں، اس لئے روزے کے حقیقی فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ان آداب کا بجا لانا ضروری ہے- اس لئے کہ روزہ محض کھانا پینا ترک کر دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ تمام گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ کریم کے ذکر کی طرف راغب و مائل ہو جانا ہی روزہ کی حقیقی روح ہے – نماز با جماعت کا اہتمام، تسبیح و تھلیل، قرآن کریم کی تلاوت، درود شریف کی کثرت اور توبہ و استغفار کے ذریعہ رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ کریم کی رحمت، برکت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کریں-
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے شعبان کے آخر میں خطبہ ارشاد فرمایا: کہ اس مہینے(رمضان) میں چار چیزوں کی کثرت کرو! دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو! اور دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں- جن دو چیزوں کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو وہ کلمہ شہادت اور استغفار ہیں، اور جن دو چیزوں کے بغیر تم کو چارہ نہیں، وہ یہ ہیں: کہ اللہ کریم سے جنّت کا سوال کرتے رہو اور دوزخ سے اس کی پناہ مانگو-(شعب الایمان للبیھقی، فضائل شھر رمضان، جلد 3، الرقم: 3608)
متذکرہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ یقینا ماہِ رمضان المبارک ذکر و اذکار کی کثرت کر کے اپنے رب کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کا مہینہ ہے، رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے حصول کا مہینہ ہے- لہذا اللہ کریم کے اس عظیم الشان تحفہ، انمول نعمت ماہ رمضان المبارک میں مزید سے مزید ذکر و اذکار میں مصروف رہیں، ذکرِ الٰہی اور درود و سلام کی چاشنی و حلاوت سے رطب اللسان رہیں اور اللہ کریم کی خوشنودی حاصل کریں-
اللہ کریم ہمیں ماہِ رمضان المبارک میں خوب خوب ذکر و اذکار کی سعادتیں حاصل کرنے کی توفیق بخشے- آمین یا ربّ العالمین
از: محمد مقتدر اشرف فریدی
اتر دیناج پور، بنگال