شعبان اور شب برات میں کیا کریں
از: ابوضیاغلام رسول مِہْرسعدی
پروردگار عالم کالاکھ لاکھ شکرواحسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا اور مسلمان بنایالہذامسلمان کا ہرایک کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہوناچاہیے
اللہ پاک نے بندوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور عبادات کیلئے مہینے اور اوقات مقررفرمائے. چند مہینے ایسے بھی ہیں جن کاذکر حدیث پاک میں خصوصی طور پر کیا گیا ہے. اور وہ رجب، شعبان اور رمضان ہے
جیساکہ اللہ پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
رجبُ شھرُاللہ وشعبانُ شھرِی ورمضانُ شھرُاُمتی،ترجمہ؛ رجب اللہ پاک کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے.
اسلامی مہینوں میں آٹھواں مہینہ شعبان ہے جس کے تعلق سے مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے اب غور فرمائیں کہ جس مہینہ کو پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنا مہینہ فرمائیں اس مہینہ کی عظمت وشان کیا ہوگی.
اللہ پاک ہمیں ماہ شعبان کی قدرکر نے اور اِس مہینہ میں کثرت سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
شعبان کی پندرہ تاریخ کو”شب برات،، کہتے ہیں جس کی بڑی فضیلتیں اور عظمتیں ہیں.
شب برات کو کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں ہیں.
حدیث پاک میں فرمان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہے :پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعا رد نہیں کی جاتی. (1)رجب کی پہلی رات (2)پندرہ شعبان (3)جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات (4)عیدالفطر کی رات (5)عیدالاضحیٰ کی رات. ،،(الجامع الصغیر ص241حدیث 3952)
جوبھی پندرہ شعبان کو شب بیداری کر کے عبادت الہی میں رات گزارے یقیناً وہ شخص قسمت کا دھنی ہے.
فضل خدا سے جس کو ملی ہے شب برات
اپنی حیات میں وہ دھنی ہے شب برات
ماناہے جس نے بھی تجھے اس کے نصیب میں
باغ ارم کی ایک گلی ہے شب برات
جس وقت تیرے آنے کی مجھ کوخبر ملی
دل میں قرار لب پہ ہنسی ہے شب برات
شب برات کی ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس رات خداوندقدوس بےشمار بندوں کو بخش دیتا ہے.
احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں.
حدیث :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرماہیں، آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ ناانصافی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانی دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتاہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتاہے. (ترمذی شریف ج1ص156)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سےروایت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتاہےاوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتاہے، سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے. (شعب الایمان للبیہقی ج3ص380)
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کاارشاد ہےکہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے.(مشکوۃ شریف ج1ص277)
امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر ہے، رشتے ناتے توڑ نے والا، بطور تکبرازار ٹخنے سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کانافرمان، شراب نوشی کرنے والے.(شعب الایمان ج3ص384)
پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اس طرح توبہ کریں کہ جس کا اثرتوبہ کرنے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے.
الله پاک ہمیں نفل نمازوں اور نفل روزوں پرعمل کرنےسے زیادہ بڑی راتوں میں فرائض و واجبات کو اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شب برات کو بعد نماز مغرب دو دو رکعت کرکے چھ رکعات نفل نمازیں پڑھنے کا رواج ہے۔
اورہردورکعت کے بعد ایک ایک باربار سورہ یس شریف اور دیگر نفلی عبادتوں نیز پندرہویں شعبان کو نفلی روزےکا بھی اہتمام کیا جاتا ہے.
مگر اُن نفل نمازوں اور نفل روزوں کی فضیلتیں اور برکتیں حقیقت میں انہیں ملیں گی جونفل نمازوں کی جگہ قضافرض نمازیں اورقضا فرض روز ےاداکریں گے۔ ورنہ وہ نفلی عبادتیں نامقبول ہونگے اور خود نیک اعمال کرنے والا عبادت کی حقیقی لذتوں سےمحروم ہوں گے۔
جبکہ نفل نمازوں اور نفل روزوں کی جگہ جو شخص قضائےعُمری ادا کرےتواس کی قضافرض نمازیں اور قضا فرض روزے تواداہی ہونگےمزیدقضائے عُمری اداکرنے کی وجہ اُسے نفل نماز اور نفل روزوں کا ثواب بھی بغیر پڑھے ملےگا ان شاءاللہ تعالیٰ
جیسا کہ خلیل ملت حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :جو شخص نفل نماز اور نفل روزے کی جگہ قضا عُمری فرض وواجب اداکرنے وہ لو لگائے رکھے کہ مولیٰ عزوجل اپنے کرم خاص سے قضا نمازوں کے ضمن میں ان نوافل کا ثواب بھی اپنے خزائن غیب سے عطا فرمادے جن کے اوقات میں یہ قضا نمازیں پڑھی گئیں. واللہ ذوالفضل العظیم.(قضانمازکےضروری احکام ص60/ بحوالہ سنی بہشتی زیور ص240)
لہذا شب برات اوردیگر مبارک راتوں میں نفل نمازپڑھنے
کےبجائےچھُوٹی ہوئی(قضائے عُری) فرض وواجب نمازوں کو اداکرےکیونکہ قضا ئے عُمری نوافل سے اہم وضروری ہے
جیسا صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے ان کی قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہوجائے البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت موکدہ کی نہ چھوڑے. (قضانمازکےضروری احکام ص58/بحوالہ بہارشریعت ج1حصہ 4 ص706)
اللہ پاک کی کیسی رحمتیں ہیں کہ اگرکسی شخص نے اپنی زندگی کی قضا نمازیں مکمل پڑھنے کی نیت سے گھرسےنکلااورموت آپہونچی توکامل نمازوں کاثواب پائےگا.
جیسا سرکار اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اگرکسی شخص کے ذمہ تیس یا چالیس کی نمازیں واجب الاداہیں اس نے اپنے ان ضروری کاموں کے علاوہ جن کے بغیر گزرنہیں کاروبار ترک کرکے پڑھنا شروع کیا اور پکا ارادہ کرلیاکہ کُل(یعنی پوری) نماز اداکرکےآرام لونگااور فرض کیجیے اسی حالت میں ایک مہینہ یا ایک دن ہی کے بعد اس کا انتقال ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اس کی سب نمازیں اداکردےگا.
قال اللہ تعالیٰ :ومن یخرج من بیتہ مھاجراالی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ. جواپنے گھر سے اللہ ورسول کی طرف ہجرت کر تاہوا نکلے پھر اسے راستے میں موت آجائے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ کرم پرثابت ہوچکا،یہاں مطلق فرمایاگھرسےاگر ایک ہی قدم نکالااور موت نے آلیاتو پورا کام اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور کامل ثواب پائے گا وہاں نیت دیکھتےہیں سارا دارومدار حُسن نیت پر ہے. (قضانمازکےضروری احکام ص59/ بحوالہ الملفوظ اول ص62)
فرض قضا نمازوں اور قضاروزوں کو چھوڑ کرنفل نماز،روزوں کو کرنے میں جوبضد ہیں
وہ ایک بار سرکار اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے ان فرمان اور فتؤوں کو بھی پڑھ لیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:(1)
جو فرض چھوڑ کر نفل میں مشغول ہواس کی سخت برائی آئی ہے اور اس کا وہ نیک کام مردود قرار پایا۔ (قضانماز کے ضروری احکام ص59بحوالہ فتاویٰ رضویہ مخرجہ ۔٢٣/۔ ٦٤٧، ٦٤٨)
(2) جب تک فرض ذمہ باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا۔
( قضا نمازکے ضروری احکام ص59بحوالہ الملفوظ حصہ 1ص62)
اللہ پاک ہمیں شریعت وسنت کی نیت سےفرائض و واجبات کی مکمل پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائےاورفکر آخرت کی صحیح توفیق عطا فرمائے.
از :اسیرشیخ اعظم
گدائے مخدوم ورضا
از: ابوضیاغلام رسول مِہْرسعدی
خطیب وامام فیضانِ مدینہ مسجد علی بلگام کرناٹک انڈیا