ایک شخصیت اور متعدد حیثیت
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
ایک انسان کسی کا بیٹا,کسی کا باپ,کسی کا بھائی,کسی کا شوہر,کسی کا دوست,کسی کا دشمن,کسی کمپنی کا ملازم اور کسی پارٹی کا ممبر ہوتا ہے۔ایک انسان کی متعدد حیثیت اور مختلف جہت ہوتی ہے۔
سوال:باب دینیات میں ہمیں امام احمد رضا سے منسلک ہونے کی کیا ضرورت ہے؟بے شمار علمائے اہل سنت ہیں۔ہر کوئی اپنی پسند کے عالم شریعت سے منسلک ہو۔کیا اہل سنت وجماعت کے عقائد ومسائل کی تعلیم وتفہیم صرف امام احمد رضا قادری نے فرمائی ہے؟
جواب:جس طرح ہر انسان کی مختلف حیثیت ہوتی ہے۔اسی طرح امام احمد رضا کی بھی مختلف حیثیت ومتعدد جہت ہے۔
1-امام احمد رضا قادری کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ بریلی کے باشندہ اور ایک عظیم الشان عالم دین ہیں۔مذہب اسلام میں بے شمار علمائے دین گزرے ہیں۔اگر عالم ومفتی ہونے کے سبب کسی سے منسلک ہونا ہو تو ہم امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منسلک ہوں گے,کیوں کہ ہم انہیں کی تقلید کرتے ہیں۔امام احمد رضا قادری بھی انھیں کے مقلد ہیں۔
2-امام احمد رضا کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ماضی قریب میں دربار خداوندی ودربار رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام سے مذہب حق یعنی مذہب اہل سنت وجماعت کی تعلیم وتبلیغ کے لئے مقرر فرمائے گئے۔اسلامی اصطلاح میں ایسے خدام دین کو”مجدد”کہا جاتا ہے۔
جس کو کسی کام کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو ان کو سارے ضروری ساز وسامان بھی دیئے جاتے ہیں۔حکومت کسی کو سپہ سالار بناتی ہے تو فوج کو اس کے زیر اقتدار کر دیتی ہے۔اس کو حکومتی ہتھیار عطا کئے جاتے ہیں۔
جب امام احمد رضا کو مجدد بنایا گیا تو لا محالہ دینی عقائد وشرعی مسائل کی تحقیق وتدقیق میں دربار الہی ودربار رسالت سے ان کی دستگیری کی گئی ہو گی۔ایسی صورت میں ان کے بیان کردہ احکام ومسائل میں لغزش وخطا کی امید نہیں۔علمائے حق کی صراحت بھی یہی ہے کہ امام احمد رضا قادری کی تحریروں میں لغزش وخطا نہیں پائی جاتی۔
ہم عقائد حقہ صحیحہ دریافت کرنے امام احمد رضا کی خدمت میں اس لئے جاتے ہیں کہ رب تعالی اور ہمارے حبیب علیہ التحیۃ والثنا نے انہیں اسی خدمت پر مقرر فرمایا ہے۔براہ راست امام احمد رضا سے ہمارا کوئی خاص تعلق نہیں کہ اس خصوصی تعلق کے سبب ہم ان کے پاس جاتے ہیں,بلکہ جن سے خاص تعلق ہے,انہوں نے ان کو ہی مقرر فرمایا ہے۔ایسی صورت میں امام احمد رضا سے احکام شرعیہ دریافت نہ کرنا رب تعالی اور حضرت حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کے مرادف ہو گا۔ہم یہی سمجھتے ہیں۔
ع/ ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
3-امام احمد رضا نے ماضی قریب کے باطل فرقوں کے احکام بیان فرمائے۔ان کے عہد کے تمام علمائے اہل سنت نے ان کی تائید وتوثیق فرمائی,اور ان کے بیان کردہ احکام کی تبلیغ واشاعت تحریری وتقریری طور پر کی۔
دیابنہ,وہابیہ,قادیانیہ,نیچریہ,ندویہ ودیگر فرق باطلہ کے احکام مجدد موصوف ہی نے بیان فرمائے۔ان احکام کو دریافت کرنے ہمیں ان کی تحریریں دیکھنی ہو گی۔
سوال:چودہ صدیوں میں بہت سے نفوس عالیہ کو مجدد کا منصب عطا فرمایا گیا,پھر کیا وجہ ہے کہ سب کو چھوڑ کر امام احمد رضا کے پاس جائیں؟
جواب:ہمارے عہد میں جو بدمذہب فرقے ہیں,ان کے احکام امام احمد رضا نے بیان فرمائے تو ان باطل فرقوں کے فیصلے انھیں کی تحریروں میں ملیں گے۔
مثلا ہمارے شہر میں بہت سے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہوں اور ہمیں آنکھ کا علاج کرانا ہے تو ہم آنکھ کے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔دوسرے ڈاکٹر ہمارا علاج نہیں کریں گے,پھر ان کے پاس جانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ہمیں واپس آ کر آنکھ کا ڈاکٹر ہی تلاش کرنا ہو گا۔
سوال:عہد حاضر میں امام احمد رضا قادری کے متبعین میں طبقہ بندی ہو چکی ہے۔ان میں سے کس طبقہ میں شمولیت اختیار کی جائے؟
جواب: یہ تمام طبقات اہل سنت وجماعت کے طبقات ہیں,جیسے حنفی,مالکی,شافعی وحنبلی اہل سنت وجماعت کے طبقات ہیں۔اگر کوئی فرد بد عقیدگی کے سبب اہل سنت وجماعت سے خارج ہو جائے تو ضرور اس سے تعلق منقطع کرنا ہے,لیکن جب تک وہ اہل سنت وجماعت میں داخل وشامل ہے تو وہ ہمارا دینی بھائی ہے۔اس کے لئے اخوت اسلامی ثابت ہے۔
چوں کہ طبقہ بندی سے ہمیں نقصان پہنچا ہے,اس لئے ہم طبقہ بندی کی تائید نہیں کرتے۔طبقہ بندی کے سبب لا مرکزیت اور آزاد خیالی پیدا ہوئی ہے۔لوگ باب اعتقادیات میں بھی قیل وقال شروع کر چکے ہیں۔
عہد اتحاد میں ہماری پوزیشن اس قدر مضبوط ہو چکی تھی کہ بعض لوگ جو اعتقادی طور پر متزلزل تھے,وہ ہماری طرف مائل ہو رہے تھے۔سنی کہلانے والے بعض طبقات مثلا حیدر آبادی,ویلوری اور ان کی فکر کے متاثرین ہماری طرف مائل ہو رہے تھے کہ اسی درمیان (1990-1995)کے عرصہ میں طبقہ بندی ہو گئی۔اب علما وفقہا کی توجہ منتشر ہو گئی۔
ہمارا مشن یہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کو امام احمد رضا قادری کے بیان کردہ عقائد واحکام پر مستحکم کریں اور ان کے قلوب واذہان کو محبت نبوی اور عشق مصطفوی کی طرف مائل کریں۔نتیجہ اللہ تعالی کے فضل واحسان پر موقوف ہے۔ہاں,یہ ضرور امید ہے کہ کامیابی ہو یا نہ ہو۔ہمیں ہرحال میں نیک نیتی کے سبب اجر عطا ہو گا۔
سوال:یہ صحیح ہے کہ افراد اہل سنت طبقہ بندیوں کے شکار نہ ہوں,لیکن بعض فقہی وفروعی مسائل میں اختلاف ہے تو کس کے قول پر عمل کریں؟
جواب:شریعت اسلامیہ کی یہی تعلیم ہے کہ جب فروعی وفقہی یعنی ظنی امور میں علما کا اختلاف ہو تو اختلافی صورت سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
چند جدید فقہی اور فروعی مسائل کی تحقیق میں علما کا اختلاف ہے۔اس میں علما کی اختلافی صورتوں سے بچنے کا طریقہ مرقومہ ذیل ہے۔
1-بعض فقہا ٹرین پر نماز کے جواز کے قائل ہیں اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔اگر ٹرین پر نماز پڑھ لی ہو تو اسے بعد میں دہرا لیں۔ایسے مواقع کم ہی درپیش آتے ہیں۔آدمی ہروقت سفر میں نہیں رہتا۔
نماز دہرانے سے کسی نے منع نہیں کیا ہے۔بالفرض ٹرین پر نماز ادا نہ ہو سکی ہو,جیسا کہ بعض فقہا کا قول ہے تو نماز دہرانے پر اس کی فرضیت ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔
2-ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر کو بعض فقہائے احناف تصویر مانتے ہیں اور بعض فقہا تصویر نہیں مانتے۔جو حضرات تصویر نہیں مانتے ہیں,وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جس کو ٹی وی اور ویڈیو سے باہر دیکھنا جائز نہیں مثلا غیر محرم کو دیکھنا تو ٹی وی اور ویڈیو میں بھی اس کو دیکھنا جائز نہیں,لیکن کسی فقیہ نے یہ نہیں کہا کہ ٹی وی اور ویڈیو دیکھنا لازم ہے۔ایسی صورت میں ٹی وی اور ویڈیو سے پرہیز کیا جائے۔
کاغذ پر بنائی جانے والی تصویر خواہ کیمرہ کی مدد سے بنائی جائے,جسے عکسی تصویرکہا جاتا ہے۔یا ہاتھ سے بنائی جائے,جس کو دستی تصویر کہا جاتا ہے۔یہ دونوں دستی اور عکسی تصویر فقہائے احناف کے یہاں جائز نہیں۔اس سے بالکل پرہیز کیا جائے۔جلسہ کے پوسٹرز,شادی کارڈ وغیرہ میں ہرگز فوٹو نہ ڈالیں۔
شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں ویڈیو گرافی سے پرہیز کریں۔جن امور میں علما کا اختلاف ہو,اس سے بچنے کی کوشش کریں۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ:11:جون 2021