1857ء کے جاں باز مجاہد
تحریر : ذاکر حسین
1857 کے جاں باز مجاہد کے بارے میں سپرد قرطاس کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے پچھلے صفحات پلٹ کر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تاکہ واضح ہوجائے کہ بھارت کس سنگین حالات سے گزر رہا تھا ـ
یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی قوم کی ترویج و اشاعت کے لیے دو چیزوں کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ایک تو تعلیم اور دوسری بنیادی چیز دولت و سرمایہ ـ تعلیم نہ ہو تو کسی بھی مشن کو فروغ نہیں دیا جا سکتا بایں وجہ انگریزوں نے تعلیم کی طرف بھی توجہ کی اور دولت کی طرف بھی ـ (بہ صورت تجارت)
جب 1707 تک ان کی 2 کمپنیاں الگ الگ تجارت کرتی تھیں تو انہوں نے 1707 میں اتفاق سے ایک کمپنی اور بنالی اور اس کا نام "ایسٹ انڈیا کمپنی” رکھا اپنے ملازموں، نوکروں کو جنگی تربیت دینا شروع کر دیا اور ساتھ ہی نئے فوجیوں کی بھرتی بھی شروع کردی ـ (یہ بھرتی ملازم کے طور پر ہوتی تھی کہ کمپنی میں کام کرنا ہے لیکن جب وہ کمپنی آتے تو انہیں کام نہیں بلکہ جنگی تربیت دی جاتی تھی تربیت دینے کے لیے باضابطہ طور سے جرنلوں کو بلایا گیا تھا ) نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی کمپنی کی طاقت مضبوط ہوگئی ـ چونکہ ملازموں اور نوکروں کی ایک تعداد تو تھی ہی اس کے ساتھ جو نئی بھرتی کی گئی وہ بھی انہیں میں شامل ہوگئی جب یہ طاقت ان کے پاس اکٹھا ہوگئی تو پھر انہوں نے 1757 میں بنگال کے نواب "سراج الدولہ” پر ایک جھوٹا الزام لگا کر اس کے خلاف اعلان جنگ کردیا ــ
انگریزوں کا بھارت کی سرزمین پر یہ پہلا اعلان جنگ تھا ـ انہوں نے اپنی عیاری اور مکاری سے نواب سراج الدولہ کو شکست دی اور بنگال پر اپنا قدم جما لیا ـ
بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد ان کی اپنی سیاسی طاقت بن چکی تھی اور مغل بادشاہ "شاہ عالم” چوں کہ دہلی اور اس کے آس پاس ہی میں گھرا ہوا تھا اس سے زیادہ آگے بڑھنے کی اس میں طاقت و قوت بھی نہ تھی اس لیے انگریز بادشاہ کے پاس پہنچے اور جبرا یہ فرمان جاری کروایا کہ بنگال، بہار، اڑیسہ اور الہ باد پر کمپنی کی حکومت رہے گی ـ ان شہروں پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چال "لڑاؤ اور حکومت کرو” کے پیش نظر دوسرے نوابوں اور راجاؤں کے درمیان آپس میں پھوٹ ڈالنا شروع کردیا اس نواب کو اس راجہ سے ،اس راجہ کو اس نواب سے لڑوایا جب یہ آپس میں لڑتے تو ان کی طاقت کمزور ہوجاتی پھر انگریز مداخلت کرتا کہیں پر قبضہ کرتا کبھی کسی ایک کے ساتھ مل کر دوسری جگہ کو خالی کرواکے نصف نصف پر قبضہ کیا جاتا غرض یہ کہ اسی پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو” پر عمل کرکے انگریزوں نے 1856 میں پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا ـ اور پھر 1857کا دور آتا ہے ـــ
1857 میں جو "جنگ آزادی” لڑی گئی اس میں بے شمار علما و صوفیا نے حصہ لیا اور انگریزوں سے جہاد کیا ـ جب انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے تو انہوں نے کچھ نئے احکامات جاری کئے ؛ جنہیں مجاہد آزادی حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (علیہ الرحمۃ) اپنی تصنیف "الثورۃ الہندیہ” میں بیان کرتے ہیں ـ (خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے)
( 1) پہلا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں اب تک جتنے مدارس اور جامعات اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کررہے ہیں ـ اور جہاں پر علما و صوفیا درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان تمام درس گاہوں کو بند کر دیا جائے اور اسکولیں قائم کی جائیں جو انگریزی حکومت کے زیر انتظام ہوں گی ــ
(2) دوسرا حکم انہوں نے یہ نافذ کیا کہ ہندوستان میں جتنی طرح کی پیداوار، اناج،غلہ اور معدنیات ہیں ان تمام کو کوئی بھی شخص براہ راست بیچ نہیں سکتا بلکہ وہ ہم سے بیچے گا پھر ہم جس طرح چاہیں گے بیچیں گے ـ اس سے کیا ہوگا ؟ یہ کہ بازار پر ہمارا کنٹرول ہوجائے گا ـ اور ہم جس بھاؤ میں چاہیں گے انھیں دیں گے اس طرح وہ معاشی بدحالی کا شکار ہوں گے ـــ
(3)تیسرا فرمان انہوں نے یہ جاری کیا کہ کوئی بھی مسلمان ختنہ نہیں کراسکتا ـــ
(4)چوتھا یہ کہ عورتیں بے پردہ باہر نکلیں گی کسی کو بھی نقاب پہننے کی اجازت نہیں ہوگی ـــ
(5)چوں کہ اس وقت فوج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں تھے ـ اور بندوق کی گولیوں کے منہ پر چربی لگی ہوتی تھی جسے بندوق چلاتے وقت دانت سے توڑنا پڑتا تھا تو اب انگریزوں نے فوجیوں کو اپنے مذہب سے متنفر کرنے اور اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لئے پانچواں فرمان یہ جاری کیا کہ کچھ گولیوں کے منہ پر خنزیر کی چربی اور کچھ کے منہ پر گائے کی چربی لگائی جائے جو مسلمان فوجی تھے ان کو خنزیر کی چربی والی دی جاتی اور جو غیر مسلم تھے انہیں گائے کی چربی والی گولی دی جاتی ـ انگریزوں کی اس سازش سے لوگوں میں بددلی پیدا ہوگئی اور فوج ان کے خلاف کھڑی ہوگئی ــ
یہیں سے جنگ آزادی کا آغاز ہوتا ہے ـ آزادی کے جنگ میں علما،صوفیا اور ہر طبقے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاـ لیکن سب سے نمایاں کردار مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی کا نظر آتا ہے ـ
علامہ فضل حق خیرآبادی کون ہیں؟
سیدنا عمر فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) کی 19/ویں پشت میں ایران میں ایک بزرگ نظر آتے ہیں حضرت شیرالملک ان کے دو صاحبزادے تھے مولانا بہاءالدین اور مولانا شمس الدین یہ دونوں ایک ساتھ ایران سے ہندوستان تشریف لائے ذی شعور عالم و فاضل تھے ـ مولانا بہاءالدین بدایوں کے مفتی اور مولانا شمس الدین روہتک کے قاضی مقرر کیے گئے ـــ
مولانا شمس الدین کی نسل میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پیدا ہوئے جن کے فرزند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور شاہ عبدالقادر محدث دہلوی وغیرہ ہیں ـ اور مولانا بہاءالدین کے سلسۂ اخلاف کے چھٹی پشت میں شیخ ارزانی پیدا ہوئے ـ اور ان کے بیٹے شیخ عمادالدین تعلیم حاصل کرنے کے لیے سیتاپور کے علاقے ہرگام گئے اور ہرگام کے قاضی وقت سے تعلیم حاصل کی ـ شیخ عمادالدین کے شہزادے شیخ ارشد ہرگام سے خیرآباد تشریف لائے اس طرح حضرت عمر فاروق(رضی اللہ تعالی عنہ) کا یہ سلسلۂ نسب عرب سے ایران، ایران سے بدایوں، بدایوں سے ہرگام اور ہرگام سے خیرآباد پہنچتا ہے ــ
خیرآباد میں شیخ ارشد کے یہاں علامہ فضل امام خیرآبادی پیدا ہوئے، علامہ اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالم دین تھے معقولات و منقولات میں علامہ کا سکہ چلتا تھا انہیں منطق و فلسفہ(جسے آج کی زبان میں لوجک کہ سکتے ہیں) میں بڑا کمال حاصل تھا ـ اور انہیں فضل امام خیرآبادی کے یہاں جو بچہ پیدا ہوا تاریخ اسے "مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی” کے نام سے جانتی ہے ـ علامہ فضل حق خیرآبادی کی حیات و خدمات:
1797 میں آپ کی ولادت ہوئی اور 1809 میں صرف 13/ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم متداولہ پڑھ کر عالم فاضل بن چکے تھے، 4/سال کچھ ماہ کی عمر میں آپ نے قرآن عظیم حفظ فرمالیا تھا، آپ شیخ دھومن دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید تھے اور آپ کا دور انگریزی دور تھا ہرجگہ انگریز قابض تھے ـ اس لیے معاشی لحاظ سے بہت زیادہ پریشانیاں اور مشکلات و مصائب سامنے تھے کئی علما نے انگریزی ملازمت کی مخالفت بھی کی تھی اور بعض نے حالات زمانہ کے پیش نظر اجازت بھی دی تھی آپ نے بھی 19/سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 16/سال تک آپ نے کمپنی میں ملازمت کی اس عرصہ میں آپ کا عہدہ "چیف کچہر” تھاـ 1831 میں آپ نے استعفی دے دیا کمپنی کی ملازمت تو آپ کرتے تھے لیکن یہ آپ کو پسند نہ تھی ــ
1832 سے لے کر 1856 تک آپ جھنجھر،الور،لکھنؤ اور سہارنپور میں نظر آتے ہیں آخری دور ملازمت آپ کا الور میں گزرا ہے اور اسی زمانے میں انگریزوں نے وہ نئے احکامات جاری کئے تھےـ(جو گزشتہ سطور میں گزرا) ان نئے احکامات کے سامنے آتے ہی جہاد آزادی اور انگریزوں کی زبان میں بغاوت کی شروعات ہوئی سب سے پہلے 10/مئی 1857 کو میرٹھ چھاؤنی کے مسلم اور غیر مسلم فوجیوں نے مشترکہ طور پر بغاوت کیا اور میرٹھ میں موجود بہت سارے انگریزوں کو قتل کیا اور پھر یہ لوگ دہلی پہنچ گئے اور بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ بنالیا جس وقت یہ فوج میرٹھ سے دہلی پہنچی اس زمانے میں آپ الور میں موجود تھے الور سے آپ کو بلایا گیا ـ اب تک صرف یہ چند فوجی بغاوت پر آمادہ تھے لیکن جب آپ تشریف لائے اور بادشاہ سے ملاقات کی اور دہلی کے بااثر شخصیت جنرل بخت خاں کے ساتھ مل کر آپ نے لوگوں کو جہاد پر ابھارا ـــ
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی نے دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف ایک زبردست تقریر فرمائی اور اسی تقریر میں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کیا، جہاد کی فرضیت و اہمیت سے روشناس کرایا اس تقریر سے آپ نے عام مسلمانوں میں جہاد کی خاطر جوش و جذبہ پیدا کردیا ـــ
اس کے ساتھ علامہ نے دوسری کاوش یہ انجام دی کہ اسی روز نماز جمعہ کے بعد ایک استفتاء مرتب کیا اور اسے اس وقت کے اکابر اور جید علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا ـ اس سوال نامے میں یہ تھا کہ انگریز جو ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ رکھتا ہے اور اسلامی شعار کو مٹا رہا ہے اور اسلامی تعلیمات کو بند کررہا ہے ـ ایسے وقت میں مسلمانوں کے اوپر جہاد فرض ہے یا نہیں؟
جب یہ استفتاء پیش ہوا تو اس وقت جتنے اکابر علما جامع مسجد دہلی میں موجود تھے ان سب نے فتوی دیا کہ : آج کی حالت ایسی ہے کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں مسلمانوں پر انگریزوں سے جہاد کرنا فرض ہے ـ یہ فتوی جہاد جاری کرنے والے مندرجہ ذیل 33/علماء و مفتیان کرام تھے ـ (1) محمد نذیر حسین صاحب(2) رحمت اللہ صاحب (3) مفتی صدرالدین آزردہ صاحب (4) مفتی اکرام الدین صاحب (5) محمد میر خان صاحب(6) مولانا عبدالقادر صاحب(7) احمد سعیدی احمدی صاحب(8) محمد ضیاء الدین صاحب(9) محمد عبد الکریم صاحب(10) سکندر علی صاحب(11) محمد کریم اللہ صاحب(12) مولوی محمد سرفراز صاحب(13) سید محبوب علی جعفری صاحب(14) محمد حامی الدین صاحب(15) سید احمد علی صاحب(16) الہی بخش صاحب(17) محمد انصار علی صاحب(18) مولوی سعیدالدین صاحب(19) حفیظ اللہ خان صاحب(20) محمد نورالحق صاحب(21) حیدر علی صاحب(22) یوسف الرحمان صاحب(23) مولوی فریدالدین صاحب(24) سید عبدالحمید صاحب(25) محمد ہاشم صاحب(26) محمد امداد علی صاحب(27) محمد مصطفی خان صاحب(28)محمد مولوی امداد صاحب(29) مفتی محمد رحمت علی صاحب (مفتی عدالت عالیہ) (30)سید محمد صاحب(31) محمد علی حسینی صاحب(قاضی القضاۃ)(32) مولوی محمد علی صاحب(33) ایک اور عالم دین غالبا عبدالغنی صاحب ہیں ــــ
یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ جب پورے ملک پر انگریز قابض تھے صنعت و تجارت سے لےکر تعلیم تک ان کے قبضہ میں تھی، لوگوں کو طرح طرح سے ستایا جارہا تھا، ہر کسی کی چاہت یہی تھی کہ انگریزوں کو 7/سمندر پار واپس بھیج دیا جائے ان سے اپنے ملک کو آزاد کرالیا جائے لیکن معاملہ یہ تھا کہ شروعات کون کرے؟ تو شروعات میرٹھ کے چند فوجیوں نے کی تھی لیکن وہ صرف فوجی تھے ـ دوسرے لوگ شامل نہیں ہوئے تھے لیکن علامہ نے جب استفتاء علماء کی خدمت میں پیش کیا اور اس پر مندرجہ بالا 33/علماء نے اپنے تائیدی دستخط ثبت کیے اور پھر یہ فتوی دہلی کے اخبار "الظفر اردو” میں شائع ہوا اور اس کے بعد والے شمارے میں خود علامہ نے اپنا ایک فتوی جہاد سے متعلق لکھ کر اسے بھی اخبار "الظفر” میں شائع کروایا، ان دونوں فتووں کے شائع ہونے کے بعد مؤرخین کہتے ہیں کہ: ان دو فتووں کے سامنے آتے ہی عام لوگوں میں شورش بہت زیادہ بڑھ چکی تھی اور نتیجتا تھوڑے ہی دنوں میں 90/ ہزار عام مجاہدین بہادر شاہ ظفر کے جھنڈے تلے جمع ہوچکے تھے، یہ 90/ ہزار مجاہدین جو جمع ہوئے ان میں سب فوجی نہیں تھے فوج کے علاوہ شہری اور دیہاتی لوگ بھی تھے یہ سب علامہ اور ان 33/ علما کے فتووں پر جمع ہونے والے تھے ، اس لیے بجا طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باضابطہ جہاد آزادی کی شروعات علما و صوفیا نے کی ہے اور ان سے فتوی لینے کا کام چوں کہ علامہ نے کیا ہے اس لیے مجاہدین جنگ آزادی کے ” امیر کارواں ” اور ” سرخیل ” علامہ فضل حق خیرآبادی ہیں ـــ
اس فوج کی کچھ مقامات پر انگریزوں سے جھڑپیں ہوئیں لیکن اس موقع پر بھی انگریزوں نے وہی پرانی سازش (لڑاؤ اور حکومت کرو) رچی اور اس طرح اس جنگ آزادی(جو علامہ اور دیگر علما نے لڑا) کو ناکام بنادیا ـ لیکن یہ علما ہارے نہیں ــــ
علامہ نے مجاہدین تک سامان رسد ،کھانے پینے کے سامان اور دیگر اوزار و اسلحہ پہنچانے کا خود انتظام کیا ـ لال قلعہ میں ایک خاص میٹنگ ہوئی اور اس میٹنگ میں علامہ نے بہت ساری باتیں پیش کیں کہ ان باتوں پر عمل ہونا چاہیے ـ اس کے بعد پھر ــــ
1857 میں جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے آثار نظر آنے لگے چوں کہ یہ وقت ایسا تھا کہ مجاہدین دم بدم آگے بڑھتے ہی جارہے تھے جس سے یہ سماں بندھ چکا تھا کہ اب ہمارے گئے ہوئے دن واپس لوٹ آئیں گے، تو پھر یہ سوال اٹھا کہ اب اگر ہمارے دن پلٹ کر آتے ہیں تو ہمیں کس دستور کے تحت حکومت باقی رکھنا ہوگا ـ اس پر علامہ نے بہادر شاہ ظفر سے مشورہ کیا تو بہادر شاہ ظفر نے کہا: اس دستور کو آپ ہی بنالیں ـ لہذا علامہ نے دستور حکومت بھی مرتب کیا ــ
مگر وائے رے محرومی قسمت 19/ستمبر 1857 کو دہلی پر انگریزوں نے مکمل طور سے قبضہ کرلیا اس کے پہلے تک تو دہلی میں مغل شہزادوں کی حکومت تھی اگرچہ برائے نام سہی لیکن اب جو انہوں نے قبضہ کیا تو مکمل طور سے راستہ صاف کرلیا تھاـ لہذا 19/ ستمبر سے 24/ ستمبر تک علامہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر دہلی میں نظر بند رہے ـ 24/ ستمبر کے بعد علامہ دہلی سے روانہ ہوئے ـ اور کس حال میں روانہ ہوئے؟ آپ سوچیں کہ جو فضل امام خیرآبادی کا بیٹا ہو، ہزاروں علما کا استاد ہو، اسے علم و فن سے کیسا لگاؤ رہا ہوگا اور کتابوں سے کیسی محبت رہی ہوگی مگر یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ علامہ "الثورۃ الہندیہ” میں خود لکھتے ہیں کہ: میں اپنے قیمتی اور نایاب کتب خانے کو دہلی چھوڑ کر کسی طرح بچتا بچاتا اپنے وطن کو روانہ ہوا ـ دہلی سے خیرآباد بہت دور نہیں ہے مگر حالات ایسے تھے کہ 2/ مہینے کے بعد رام پور اور علی گڑھ ہوتے ہوئے دسمبر کے درمیانی عرصے میں علامہ اپنے وطن کو پہنچے ـــ
پھر علامہ کو خیرآباد سے گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا انگریز جج نے آپ کو جزیرہ انڈمان بھیجنے کا حکم سنایا ـ
آپ کے اسیری کے دن کیسے تھے؟
جب آپ کو انگریزوں نے مکر و فریب سے قید کرلیا تو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے لے جاتے رہے ایک سخت زمین سے دوسری سخت زمین میں منتقل کرتے رہے اور غم پر غم ڈھاتے رہے ـ یہاں تک کہ آپ کے جوتے اور لباس اتار لیا گیا، اس کی جگہ موٹا کپڑا پہننے کے لیے دیاگیا ـ پہلے پہل انہیں صفائی کے کام پر مامور کیا گیا ـ ٹوکرا لیتے اور کوڑا کرکٹ جمع کرکے پھینک آتے ـ (جب کہ ایک وقت وہ تھا کہ علامہ ہاتھی کی پالکی پر آمد و رفت کیا کرتے تھے لیکن آج آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ـ) کچھ عرصہ کے بعد جب رہائی کی خبر سن کر ان کے لخت جگر والد کو لانے کے لیے انڈمان پہنچے تو ایک جنازے پر نظر پڑی جس کے ساتھ بھیڑ تھی ،دریافت کرنے کے بعد علم ہوا کہ مجاہد آزادی فضل حق خیرآبادی آخری سفر پر گامزن ہیں ـ اس طرح جنگ آزادی کا ایک عظیم ستارہ جد و جہد کی تھکاوٹ سے فارغ ہو کر 20/ اگست 1861 کو ہمیشہ ہمیش کی راحت پاگیا ـ ساؤتھ پاؤنٹ پورٹ بلیز(انڈمان) میں ان کی درگاہ پر آج بھی عرس ہوتا ہے ــــ
علامہ ہی کی طرح دوسرے بہت سارے علما نے جہاد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے ـ مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی (رحمۃ اللہ علیہ) آپ صرف عالم نہیں شیخ طریقت بھی تھے آپ کے ہزاروں مریدین تھے آپ نے اپنے بے شمار مریدوں کو اکٹھا کیا سب کو فوجی تربیت دی انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ، جہاد کرتے ہوئے لکھنؤ تک پہنچ گئے اور آدھے لکھنؤ پر قبضہ بھی کرلیا تھا لیکن یہاں پھر وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نا اہل شخص جو کہ انگریزوں کے ساتھ مل چکا تھا اس کی وجہ سے آپ کو مقبوضہ لکھنؤ سے ہاتھ دھونا پڑا اور آپ شہید ہوگئے ــ
اسی طرح مولانا لیاقت علی صاحب الہ آبادی(رحمۃ اللہ علیہ) آپ بھی عالم و شیخ طریقت تھے آپ نے بھی اپنے مریدین کو جہاد کے لیے ابھارا اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر جہاد آزادی میں حصہ لیا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آپ کو بھی گرفتار کرکے جزیرۂ انڈمان بھیج دیا گیا ــ (وہیں پر آپ کی قبر ہے)
ایسے ہی مفتی عنایت احمد صاحب کاکوروی(رحمۃ اللہ علیہ) یہ بھی ایک جلیل القدر عالم دین تھے آپ نے اپنے قیام بریلی کے دوران انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا، وہی فتوی(بغاوت سرد ہونے کے بعد) جب انگریزوں تک پہنچا تو انہوں نے آپ کو بھی گرفتار کرلیا اور کالا پانی کی سزادی ــــ
مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی(رحمۃ اللہ علیہ) انہوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد آزادی میں حصہ لیا اور ان کو بھی انگریزوں نے پھانسی کی سزا دی تھی ــ
جہاد آزادی کے قائدین علما میں یہ چند کا مختصر تعارف تھا ـ اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخر جہاد آزادی 1857 کامیاب کیوں نہیں ہوا ؟ تو غور کرنے کے بعد سطح ذہن پر یہ جواب ابھرتا ہے کہ اپنے صفوں میں غدار اور جاسوسی نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ـــــ