تعلیمی منصوبہ بندی اور مسلمانان ہند

تعلیمی منصوبہ بندی اور مسلمانان ہند

Table of Contents

تعلیمی منصوبہ بندی اور مسلمانان ہند

 

ویسے تو ہم تعلیمی منصوبہ بندی میں کہیں نظر ہی نہیں آتے اور یہ افسوس کی بات ہے۔ مگر اس ہفتہ واقع دو واقعات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہو کہ تعلیمی منصوبہ بندی سے کیسے کامیابی کی طرف قدم بڑھائے جا سکتے ہیں۔ (تعلیمی منصوبہ بندی اور مسلمانان ہند)
اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ جب بچے تعلیمی میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ہمارے گھروں میں احباب اور رشتہ داروں کے سامنے بچوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے کہ ہمارے صاحب زادے یا صاحب زادی نے فیل یا جزوی ناکامی کا لیبل لگا کر سماج میں ہماری ناک کٹا دی۔
مگر در اصل ہم بچوں کی ناکامی کی آڑ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ "اگر بچوں کی تعلیم کے لیے آج وقت رہتے ہم منصوبہ بندی نہیں کرتے، تو بچوں کے ناکام ہونے پر ناکامی کا ٹھیکرا بچوں کے سر پھوڑنے کا ہمیں کوئی حق نہیں”۔

دو روز قبل میں مدرسہ سے نکلا تو پڑوس میں رہنے والے غیر مسلم مراٹھی میاں بیوی اپنی ٹیلرنگ کی دوکان پر کاپی قلم کے کر حساب کرتے نظر آئے۔ شوہر بول رہا تھا کہ چھ لاکھ میں کام بن جائے گا جبکہ بیوی بول رہی تھی ہمیں آٹھ لاکھ کا بجٹ بنا کر چلنا ہوگا۔
پڑوسی ہونے کے ناطے دیرینہ تعلقات ہیں اور خوش طبعی بھی ہوتی رہتی ہے تو میں نے تفریحاً کہا کہ گجیندر بھائی آج بھابھی پورا حساب لے کر رہیں گی کہ آپ نے دوکان سے کتنا کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا۔

دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور کہا کہ آیئے تو!…… میں گیا،،،،،، انہوں نے کرسی پیش کی۔ پھر بات شروع ہوئی؛ گجیندر نے کہا کہ حافظ صاحب! (غیر مسلم حافظ صاحب ہی کہتے ہیں، انہیں کیا پتہ کہ کون حافظ ہے کون عالم) چھوٹی والی بیٹی کی نرسنگ کی تعلیم کا خرچ اور کالیج پر ڈسکشن چل رہا ہے کہ کس کالیج میں پڑھائیں گے اور کتنا خرچ آئے گا ؟
پھر بات آگے بڑھاتے ہوے کہا کہ ایک نرسنگ کالیج کی ڈریس کئی سالوں سے میں ہی سی رہا ہوں، اس بنا پر بار بار کالیج جانا ہوتا ہے، وہاں پڑھائی اچھی ہے اور ماحول بھی اچھا ہے۔ اسی کالیج کا خرچ میں بتا رہا ہوں اور یہ پڑوس کے شہر کے فلاں کالیج میں پڑھانے کی بات کر رہی ہے۔
میں نے بات کاٹتے ہوئے کا کہ خوشی (ان کی چھوٹی بیٹی) تو بہت چھوٹی ہے ابھی، غالباً سات یا آٹھ سال کی ہوگی!…
تو وہ بولے کہ حافظ صاحب ابھی سے تیاری کریں گے تبھی تو بچی کو ٹھیک ڈھنگ سے نرسنگ کے لیے تیار کر سکیں گے اور بجٹ بھی تیار رکھ سکیں گے تاکہ عین وقت پر کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
بڑی بیٹی کی تعلیم کا سارا انتظام ہوگیا ہے۔ بس اس کا باقی ہے تو اس کا بھی انتظام اور کوچنگ وغیرہ شروع کرنا ہے۔

مجھے اپنی قوم کی حالت یاد آئی تو بڑا افسوس ہوا!……ایک مرتبہ ہم مکاتب و اسکول کی اہمیت و افادیت کو بتانے اور سمجھانے کے لیے ایک قصبہ میں تھے………..وہاں کچھ لوگوں سے ملاقات کے وقت جب ان کے بچوں کے اسکول کے بارے میں پوچھا تو اکثر کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کا بچہ کس کلاس میں ہے !…… بس اتنی خبر تھی کہ ہمارا بچہ اسکول جاتا ہے اور ہمارا نہیں!………. ایک طرف اتنی پلاننگ اور ایک طرف تعلیمی منصوبہ بندی اور مسلمانان ہند کی ایسی غفلت و بے خبری ؟۔۔۔۔۔۔

ابھی رات میں چھتیس گڑھ کے شہر بھلائی میں ایک پروگرام میں تھا تو ایک صاحب کے مکان پر حاضری ہوئی….. ایک نوجوان بچہ نظر آیا اس سے تعلیم کے متعلق سوال کیا تو اس نے بتایا کہ "ایم کام” کا دوسرا سال ہے۔ پھر ساتھ ہی میں موجود ایک صاحب نے پوچھا بیٹا آگے کیا ارادہ ہے تو اس نے کہا ابھی تو کچھ نہیں……. انہوں نے کہا کہ اگر اسی لائن میں رہنا ہے تو ابھی سے کسی سی اے کے پاس پریکٹس شروع کردیں جس سے کافی مدد ملے گی….. بچے کا کوئی جواب نہیں تھا….. کچھ دیر بعد بولا ابھی کچھ سوچا نہیں ہے…..

اب آپ خود اندازہ کریں کہ اٹھارہ/ انیس سال عمر ہونے کے باوجود نہ بچے کو کچھ علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور نہ والدین کو کچھ علم ہے!………
ایک طرف سات سال کے بچے کے لیے تعلیم و تربیت کا مکمل منصوبہ ہے………… اور ایک طرف کامیاب ہو جانے کی عمر میں بھی ایسی گہری لاعلمی کے بادل چھائے ہوے ہیں………. کہ جو پڑھ رہے ہیں اسی کے متعلق خبر نہیں کہ اس سے کیا ہوگا اور اب کیا کرنا چاہیے!……

ہمارے یہاں تعلیمی منصوبہ بندی نہیں ہوتی، تعلیمی کورسز کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہوتی، بس بچہ پڑھ رہا ہے…….. کیا پڑھ رہا ہے اور کیا پڑھنا چاہیے اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو کون کامیاب ہوگا ؟
……وہ جس کے بچپن ہی سے منصوبہ بندی ہے…… یا وہ جس کو خبر ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے؟……

ہم اکثر اسکول اور کوچنگ کے ٹیچرز کے رحم و کرم پر اپنے بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ٹیچر بتائیں گے کہ بچہ کیا کرسکتا ہے اور کیا کرنا چاہیے۔
بھائی!….. کیا ضروری ہے کہ ٹیچر آپ کے بچے کا خیر خواہ ہو؟…… کیا ضروری ہے کہ درست مشورہ دے؟….. کیا ضروری ہے کہ اسے کسی کالیج والے نے بچوں کے ایڈمیشن اُن کے کالیج میں کرانے کے لیے پیسے نہ دیے ہوں ؟

اکثر یہی ہوتا ہے جو کالیج چلتے نہیں ہیں یا جن کورسز میں داخلے کم ہوتے ہیں وہ کالیج والے اسکول اور کوچنگ والوں سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں ہر بچے کے داخلے پر کمیشن دیتے ہیں جس کے چلتے ٹیچر بغیر بچے کی صلاحیتوں اور فیملی بیک گراؤنڈ دیکھے ان کالجز میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے انہیں کمیشن مل رہا ہوتا ہے……. اب وہ کورس اس بچے کے لیے بہتر ہو یا نہ ہو!……..

بچہ آپ کا ہے، ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ آپ کو خود اپنے بچے کے مستقبل کے لیے فکر کرنی ہے، اس کے مستقبل کا منصوبہ بنانا ہے، اور اس منصوبے کو کیسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے یہ بھی آپ ہی کو طے کرنا ہے۔
آپ اپنے بچے کا رجحان اور اس کی صلاحیتوں کو پرکھیے اور اسی حساب سے جس فیلڈ میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوں ان فیلڈز کی پہلے خود معلومات حاصل کیجے، پھر بچے کی ذہن سازی کیجے اور اسی لحاظ سے کوچنگ کا انتظام کیجیے تب جاکر آپ کا بچہ کامیابی راہوں کا مسافر بنے گا۔

آپ خود بچے کی تعلیم کے لیے کچھ کریں گے نہیں، تو آپ کو بچے کی ناکامی پر اسے ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی کوئی حق نہیں۔

اغیار اسی لیے آگے ہیں کہ وہ تعلیم کی اہمیت سمجھ رہے ہیں اور اس کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس میدان میں اپنا سو فی صد دینا ہوگا اور پوری ایمانداری اور لگن کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام کرنا ہوگا۔ تبھی ہم وقت کے ساتھ چل کر خود کا اور قوم کا کچھ بھلا کر سکتے ہیں۔ اگر یہی غفلت رہی تو یاد رکھیں نہ تو ہم خود کامیاب ہو سکیں گے اور نہ اپنی قوم کے لیے کامیابی کی راہیں ہموار کر سکیں گے۔

١١ رجب المرجب ١٤٤٦
13 january 2025

محمد شاہد علی مصباحی
تحریک علمائے بندیل کھنڈ
روشن مستقبل دہلی


اسلاف کرام کی تجارت اور ہمارا معاشرہ

کارٹونوں کی بڑھتی تخریب کاری لمحۂ فکریہ

دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج

شیئر کیجیے

Leave a comment