پس پرد ہ
بولنے سے پہلے سمجھنے کی کوشش کریں
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد بالسیف کی حیثیت سمجھنے کی کوشش کی جائے ، تومسئلہ صاف ہوجاتاہے
تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی
پہلے کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ،پھر اس کے حوالے سے بولا جائے ، یہ عقلمندی کہلاتی ہے ۔ اور پہلے اظہار رائے ہوجائے ، پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے ، یہ بے وقوفی کہلاتی ہے ۔ اور اگرنہ صرف سمجھنے سے پہلے کسی چیز کے بارے میں اظہار رائے ہو، بلکہ اظہاررائے کے بعد بھی سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے ، اس کی تعبیر کے لیے آداب واطوار کی بڑی بڑی لغات کے پاس بھی مناسب الفاظ نہیں ہیں، اور یہ شاید اس لیے کہ اس قدر پرلے درجے کی بے وقوفی کی توقع کسی انسان سے کی ہی نہیں جاسکتی ۔لیکن کیا کیجیے گاکہ انسانوں کی فہرست میں ایسے نام ’نہاد اشرف المخلوقات‘ نکل ہی آئے، جن کی حیثیت ماورائے فہم وادراک ثابت ہوئی ہے۔
بہر کیف، میرے متذکرہ تمہیدی بیان کی تصدیق کے لیے دور جانے کی ضرور ت نہیں ، ابھی حال ہی میں وسیم رضوی کی اشتعال انگیزی آپ کے سامنے ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہتاہوں کہ جناب نے جن چھبیس قرآنی آیات پر انگشت نمائی کی جسارت کی ہے ، انھیں سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش انھوں نےکبھی بھی نہیں کی ۔ اس لیے کہ اگر وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ، تواعتراض کرنے کی کوئی ادنیٰ گنجائش تک باقی نہ رہتی۔ اورستم بالائے ستم تویہ ہے کہ اب جب کہ پوری ملت اسلامیہ انھیں سمجھانے کی کوشش کررہی ہے ، توبھی جناب والاسمجھنے کے لیے کسی اہل علم سے رابطہ کرنے کی زحمت نہیں کررہے ہیں ۔ یعنی انھوں نے دونوں ہتھیلیوں سے اپنی دونوں آنکھیں مضبوطی سے بند کررکھی ہیں اور عین دوپہر کی دھوپ میں باہر نکل کر چیخ رہے ہیں کہ آفتاب اب تک کیوں طلوع نہیں ہوا۔
یہ تورہی ایک بات، اب ذرا کان قریب کیجیے توکچھ کام کی بات عرض کروں ۔ کلیہ الدعوۃ الاسلامیہ ، طرابلس لیبیا میں طالب علمی کے زمانے میں نصاب تعلیم کے مطابق میں نے ایک مختصرتحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا’ الجہاد فی الاسلام ہجومی او دفاعی ‘ یعنی اسلام میں جہاد کی حیثیت دفاعی ہے یاجارحانہ ہے ۔تقاضائے تحقیق یہ ہے کہ زیر بحث موضوع کے حوالے سے باحث ذہنی طورپر غیر جانبدار رہے ، لہذا میں نے موضوع سے متعلق ہر طرح کے دلائل جمع کیے ۔ سب سے پہلے قرآن کریم میں جہاد سے متعلق جملہ آیات کریمہ سامنے رکھیں ، پھرسب کے نزول کے پس منظر سےواقفیت حاصل کی ، پھرامہات تفاسیر کی مدد سے انھیں سمجھنے کی کوشش کی۔ اس دوران مرکزی کتب خانے میں اسلامی جہاد سے متعلق مشہور ومعروف کتب ، ابحاث اور مقالات بھی پڑھے۔یہ درست ہے کہ بعض علما ءکرام نے جہاد اسلامی کو صرف دفاعی قرار دیا ہے، جب کہ بعض نےمتذکرہ رائے پر سخت تنقید کی اور تاریخ اسلامی سےسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی جانے والی ایسی جنگیں بطور مثال پیش کی ہیں ، جو بظاہر دفاعی نوعیت کی نہیں لگتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آخر الذکر طبقہ نے جہاد اسلامی کو ایک جہت سے دفاعی اور دوسری جہت سے جارحانہ قرار دیا ہے۔خیال رہے کہ فریقین نے اپنی رائے کی صداقت پر اپنے اپنے دلائل پیش کیے ہیں ۔
بہر کیف، میں نے فریقین کے دلائل وبراہین کا غیر جانبدارنہ مطالعہ کیا ۔میں نے محسوس کیا کہ جنھوں نے اسلامی جہاد کو جارحانہ کہنے سے گریز کیا ہے ، ان کی نگاہ جہاد اسلامی کے ہدف اصلی پر رہی ہے اور وہ ہے برائی کا خاتمہ ۔ اور ظاہرہے کہ برائی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوشش کسی بھی قیمت پر جارحانہ قرار نہیں دی جاسکتی۔ جب کہ دوسرے فریق نے قرون اولیٰ میں لڑی جانے والی جنگوں پر تمام تر توجہ مرکوز رکھی ہے ، لہذا انھیں بعض جنگیں دفاعی محسوس ہوئی ہیں اور بعض جارحانہ اقدامات ۔ اس طرح پہلی نگاہ میں یہ کہا جاسکتاہے کہ دونوں آرا اپنی اپنی جگہ درست ہیں ، بس فرق اس طرح ہے کہ کس نے کس جہت سے نگاہ ڈالی ہے ۔
اسے فضل الٰہی کہیے کہ چند دنوں تک غور وفکر کرنے کے بعد دونوں طرح کے دلائل وبراہین میں تطبیق کی ایک صورت نکل آئی ، جو مقصد وہدف کے آئینے میں بھی درست ہے اور جہاد اسلامی کے تاریخی تقاضے پربھی پوری اترتی ہے ، اور وہ یہ کہ جہاد اسلامی کی حیثیت سرتاسر ’دفاعی ‘ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اسلامی جہاد سے مقصود ہی اپنی عزت وآبرو ، جان وملت اور عقیدہ وعمل کا دفاع کرنا ہے۔ اب اس کی دو صورتیں بن جاتی ہیں ؛ ایک یہ کہ آپ اپنے گھر ،بستی ،شہر یااپنے ملک میں ہوں اور باہر سے کوئی آکرحملہ کردے ،توآپ ڈٹ کر مقابلہ کریں اور ہر ممکنہ اقدامات سے اپنی عزت وآبرو اور مال ودولت کا دفاع کریں ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی طرح آپ تک یہ مصدقہ اطلاع پہنچے کہ فلاں مقام پر یا فلاں شہر میں شرپسند عناصر آپ پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی بنا رہے ہیں اور چند دنوں میں آپ کی آبادی نیست ونابود کردی جائے ۔ لہذا آپ اس تشویش ناک صورت حال کے مقابلے کے لیے اپنے طورپر تیاری کرتے ہیں اور اس سے پہلے کہ دشمن آپ پر حملہ آور ہوں ، آپ پوری طاقت سے اچانک ان پر حملہ کرتے ہیں اور ان کا متذکرہ منصوبہ خاک میں ملادیتے ہیں ۔
للہ غیر جانبداری کے ساتھ غور کیجیے ۔ پہلی صورت کا دفاعی ہوناتو آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے ، جب کہ دوسری صورت بظاہر جارحانہ دکھائی دیتی ہے، تاہم امعان نظر سے دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ یہ بھی دفاعی نوعیت کی ہے ۔ اور یہ اس لیے کہ دوسری صورت میں دشمن پر حملہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی حتمی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ ہاں اگر خواہ مخواہ کسی امن پسند علاقے پر حملہ کرنے کی کوشش ہوتی ،تواسے بلاشک وشبہ جارحانہ قرار دیا جاسکتاتھا۔ خیال رہے کہ قرآن مقدس نے کئی آیات میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم وزیادتی کو پسند نہیں فرماتا، حتی کہ اگر دشمن کی کسی دشمنی کے خلاف اقدامات کیے جائیں ، جب بھی حد سے تجاوز کرنا قرآنی تعلیمات کے سرتاسر خلاف ہے ۔ اس لیے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ قرآن مقدس کسی کے خلاف جارحانہ اقدامات کی اجازت دے ۔
ہاں ایک صورت اسلامی جہاد کی یہ رہ جاتی ہے کہ کسی علاقے میں بادشاہ وقت کے ہاتھوں ظلم ہورہاہو، یا کچھ شرپسند عناصرظلم وبربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں ، توبلا شک وشبہ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ظالموں کی سرکوبی کے لیے محدود لشکرکشی کی اجازت ہے ۔ اور ظاہرہے کہ یہ بھی دوسروں کے دفاع کے لیے ہے ، اس لیے اسے بھی دفاعی جدوجہد کے خانے میں داخل ہونا چاہیے ۔
صاحبو! دفاعی جدوجہد کے چند پہلو آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ اب اگر زحمت نہ ہو، توقرآن کریم میں قتل وقتال اور جنگ وجدال کے حوالے سے جملہ آیات پر ایک نگاہ ڈالیں اور خصوصیت کے ساتھ اُن چھبیس آیات کے مفہوم تفاسیر کے آئینے میں سمجھنے کی کوشش کریں ، آپ محسوس کریں گے کہ یہ سب اپنے اپنے طورپر دفاعی جدوجہد پرمبنی ہیں ۔ اور یہ کہنے کی بات نہیں کہ ابتداءکائنات سے لے کر آج تک کی مہذب دنیا میں اپنے اور دوسروں کی عزت وآبرو اور جان ومال کی حفاظت کے لیے مزاحمت کرنے کا حق عالمی طورپر تسلیم شدہ ہے ۔ ہر مذہب ، ہر رنگ ونسل اور ہر تہذیب وتمدن کے افراد اسے نہ صرف مناسب سمجھتے ہیں ،بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔
خیال رہے کہ دفاعی جدوجہد کے حوالے سے قرآن مقدس میں متذکرہ آیات نہ بھی ہوتیں ، جب بھی دفاع کا یہ حق ہمیں حاصل رہتا۔ دراصل ان آیات کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اسلامی تحریک کی ابتدا میں مصلحت کے پیش نظر ظلم وستم اور قہر وجبر کے خلاف ہتھیاراٹھانے کی اجازت نہ تھی،پھر جب حالات بدل گئے ، تومسلح دفاع کی اجازت کے لیے وحی الٰہی ناگزیر ہوئی ۔
(اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد بالسیف کی حیثیت)
۲۳؍مارچ ۲۰۲۱ء
ghulamzarquani@yahoo.com