معترضہ آیات جہاد

معترضہ آیات جہاد قسطِ دوم

Table of Contents

معترضہ آیات جہاد قسطِ دوم

( معنیٰ و مفہون ، شانِ نزول، پسِ منظر)

بقلم: بدر الدجیٰ الرضوی المصباحی

ناخلف وسیم رضوی نے ابھی حال ہی میں غیر متبدل قرآن پاک کی چھبیس آیات جہاد کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن (عرضی) داخل کی ہے اور انہیں خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنھم کے اخلاط کا نتیجہ قرار دے کر قرآن مقدس سے حذف کرنے کا جو ناجائز مطالبہ کیا ہے یہ اس کا کوئی نیا کارنامہ نہیں ہے یہ کام آج سے دو دہائی قبل وشو ہندو پریشد کی تنظیم اپنے دفتر سے بڑے پیمانے پر ایک پمفلٹ کی اشاعت اور اس کی تقسیم کے ذریعے انجام دے چکی ہے لیکن وشو ہندو پریشد بھی یہ ہمت نہیں جٹا پائی کہ سپریم کورٹ جا کر قرآن کو چیلنج کرے لیکن آج اس کی ناجائز اولاد وسیم رضوی نے ان آیات کے خلاف بنام مسلمان سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر عالم اسلام کو نہ صرف یہ کہ حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ان کے خاموش جذبات میں ہیجان پیدا کردیا ہے اور ضروریات دین کا انکار کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے آج شیعی علما اور مشائخ کے مراکز بھی اس کی ناپاک حرکت پر بڑے پیمانے پر اسے مرتد قرار دے رہے ہیں جس کے لیے وہ مبارکباد کے قابل ہیں بلکہ اس کے چھوٹے بھائی نے بھی نہایت دل گیر لب و لہجے میں تقریری بیان دے کر مع اہل خانہ، والدہ، بھائی اور بہن کے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔
اتنی تفصیل کے بعد اب ہم ان آیات معترضہ کو یکے بعد دیگرے پیش کریں گے پھر مستند تفاسیر کی روشنی میں ان کے معانی و مفاہیم، شان نزول اور پس منظر پر روشنی ڈالیں گے تاکہ یہ واضح ہوجاۓ کہ اسلام دین فطرت اور خدائی قانون کا نام ہے یہ کسی انسان کا وضع کردہ نہیں ہے اور قرآن خدا کی نازل کردہ غیر متبدل کتاب ہے جو ہر طرح کے حشو و زوائد سے پاک و صاف ہے اس میں خلفاۓ ثلاثہ یا اربعہ یا کسی اور انسان کی کسی آمیزش کا قطعا کوئی دخل نہیں ہے اور اس کی ساری دفعات، کلیات و جزئیات فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہیں اور یہ کسی بھی قسم کے قطع و برید اور زیادت و نقصان سے محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گا اور یہ کہ قرآن صلح و آشتی، امن و امان کا داعی اور نقیب ہے اس کا دہشت گردی اور آتنک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

معترضہ آیاتِ جہاد اور ان کامفہوم و معنیٰ

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡھُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡھُمۡ وَ خُذُوۡھُمۡ وَ احۡصُرُوۡھُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَھُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَھُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ( التوبہ ، آیت : 5)
پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکات دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (کنزالایمان)
یہاں پر آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام دشمن طاقتوں کو جن آیاتِ جہاد پر اعتراض ہے ان میں اکثر کا تعلق سورۂ توبہ سے ہے لھذا یہاں پر یہ جان لینا ضروری ہے کہ سورۂ توبہ کا نزول کن حالات اور کن اسباب و علل سے ہوا۔
سورۂ توبہ کی ابتدائی 30 یا 40 آیات کا نزول فتحِ مکہ کے بعد 9 ہجری میں ہوا مسلمانوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت اور حضور ﷺ کے اتفاق سے مشرکینِ مکہ اور دیگر قبائلِ عرب سے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا جس کی پاسداری فریقین پر ضروری تھی مسلمان اس عہد و پیمان پر عمل پیرا رہے لیکن بنو ضمرہ اور بنو کنانہ کو چھوڑ کر دیگر مشرکین مکہ اور قبائل عرب نے عہد شکنی کی جس کا ذکر سورۂ توبہ کی آیت نمبر 4 میں صراحت کے ساتھ موجود ہے حتی کہ صلح حدیبیہ کے آخری معاہدے کو بھی انھوں نے پسِ پشت ڈال دیا جس کی دفعات بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کی طرف مُشعِر تھیں۔اس ترقی یافتہ دور میں غیر مسلم دنیا بھی عہد و پیمان کا احترام کرتی ہے اور ایفائے عہد کو ہر حال میں لازم قرار دیتی ہے اور اسلام میں تو ایفاے عہد کی سخت تاکید کی گئی ہے قرآن مجید میں جا بجا عہد و پیمان پر عمل آوری کا حکم دیا گیا ہے اور یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ تم عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہوگا۔ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَھْدِ ۚ اِنَّ الۡعَھْدَ کَانَ مَسۡئُوۡلًا ( بنی اسرائیل ، آیت: 34) لیکن ظاہر ہے کہ جب ایک فریق عہد شکنی بر اتر آتا ہے تو عہد خود بخود ساقط ہوجاتا ہے اور یہی یہاں پر بھی ہوا، جب مشرکینِ مکہ کی عہد شکنی سامنے آگئی تو حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو 9 ہجری میں حج کے موقع پر امیر الحج بنا کر مکۃ المکرمہ روانہ فرمایا اور ان کے پیچھے عضبا ( اونٹنی ) پر سوار کرکے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی مکۃ المکرمہ بھیجا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے یوم ترویہ ( 8/ ذی الحجہ ) کو خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے مناسک حج بیان فرمائے اور یوم نحر 10/ ذی الحجہ ) کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہوکر مشرکین مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! میں تمھاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرستادہ بن کر آیا ہوں مشرکین نے کہا: آپ ہمارے لیے کیا پیغام لے کر آیے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سورۂ توبہ کی ابتدائی 30 یا 40 آیات طیبات کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں تمھارے پاس چار باتوں کا حکم لے کر آیا ہوں (1) اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبہ شریف کے پاس نہ آئے (2) کوئی شخص برہنہ ہوکر کعبہ شریف کا طواف نہ کرے (3) جنت میں سوائے اہل ایمان کے کوئی داخل نہیں ہوگا (4) ہر ذمی کے عہد کو پورا کیا جائے گا ( تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 41)
مذکورہ تفصیل سے یہ مبرہن ہوگیا کہ آیت نمبر 5 میں جن مشرکین کو اشہر حرم کے بعد مارنے یا ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے عام کفار و مشرکین مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا تعلق ان مشرکینِ عرب سے ہے جنھوں نے مسلمانوں سے نہ صرف یہ کہ عہد شکنی کی بلکہ دعوت اسلام کی پامالی کے لیے اپنی ناپاک مساعی صرف کردیں جیسا کہ "فاقتلوا المشرکین” کی تفسیر میں صاحب تفسیر ابی سعود فرماتے ہیں : ” الناکثین خاصۃ فلایکون قتال الباقین مفھوما من عبارۃ النص بل من دلالتہ” [ تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 43]
اور صاحبِ مدارک نے بھی اس کی یہی تفسیر بیان کی ہے فرماتے ہیں :” الذین نقضوکم و ظاھروا علیکم” [ تفسیر النسفی ، ج: 2، ص: 116، اصح المطابع ممبئی ]
بلکہ اس سورت میں اول سے آخر تک خطاب انھیں کفار و مشرکین کے ساتھ ہے جنھوں نے اپنے عہد کی پاسداری نہیں کی جیسا کہ اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر ابی سعود فرماتے ہیں : المراد بالمشرکین الناکثون لان البراءۃ انما ھی فی شانھم [ ایضا، ص: 44]
ان مستند اور معتبر تفسیرات سے یہ عیاں ہوگیا کہ سورۂ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں جو مشرکین و کفار کو قتل کرنے اور وہ جہاں ملیں وہاں انھیں مارنے اور دھر پکڑ کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے عام کفار و مشرکین اور برادران وطن مراد نہیں ہیں جیسا کہ وسیم رضوی اور اسلام دشمن عناصر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں بلکہ اس سے خاص عہد رفتہ کے وہ مشرکین مکہ اور قبائل عرب مراد ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھوکہ دھڑی اور عہد شکنی جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا قرآن ہرگز اس امر کا داعی نہیں ہے کہ بلا وجہ چلتے پھرتے بے قصور یا دیگر لوگوں پر کلاشنکوف سے گولیاں برسائی جائیں اور سیکڑوں بچوں کو یتیم اور عورتوں کے سروں سے سہاگ کی ردائیں چھین لی جائیں قرآن تو اس کا داعی ہے کہ اگر ایک انسان نے بلا وجہ کسی بھی انسان کی جان لے لی خواہ وہ کسی بھی مذہب کا متبع ہو تو گویا کہ وہ روۓ زمین کے تمام انسانوں کا قاتل ہے اور اگر کسی نے کسی بھی مظلوم و مقہور کمزور اور ناتواں انسان کی جان بچائی تو گویا کہ اس نے روۓ زمین کے تمام انسانوں کی جان بچانے کا کام کیا قرآن فرماتا ہے:مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًاۚ(المائدہ آیت: 32)
جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلا لیا (کنز الایمان) بلکہ اگر کہیں پر صحیح طرح اسلامی حکومت کا نظام نافذ ہو تو وہاں پر غیر مسلم اقلیت کی جان و مال اور حقوق اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کہ مسلم اکثریت کی جان و مال اور حقوق محفوظ ہیں انہیں بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے اور عبادت خانے کی تعمیر کا وہی حق حاصل ہے جو مسلم اکثریت کو حاصل ہے جیسا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ”( المستدرک للحاکم، ج: 2، ص: 142، کتاب قسم الفئی، دار المعرفہ، بیروت ، لبنان )
جس نے کسی معاہد کو بلا جرم قتل کیا اس پر جنت حرام ہے
اور ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مَنْ قَتَلَ نفسا مُعَاهَدۃ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لیوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ خمسمائۃ عام ‏”‏‏.‏(جمع الجوامع للسیوطی، ج: 9، ص: 721، دار السعادۃ،)
جس شخص نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا باوجویکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے سونگھی جاتی ہے۔ اور عہد و پیمان کے بعد اسے توڑ دینے والے کی سرزنش حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس انداز میں کر رہے ہیں: ” اِن الغادِر یُنصب لہ لواء یوم القیامۃ فیقول ھذہ غدرۃ فلان بن فلان” ( جمع الجوامع للسیوطی، ج: 8، ص: 370، دار السعادۃ،)
بے شک عہد شکن کے لیے قیامت کے روز نشان کھڑا کیا جاۓ گا اور کہا جائیگا اس نے فلاں بن فلاں سے غدر کیا۔
اور ایک مسلمان قاتل سے مقتول ذمی کے وارثین کے خوں بہا قبول کرلینے کی تصدیق کے بعد قاتل کو آزاد کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: "من کان لہ ذمتنا فدمہ کدمنا و دیتہ کدیتنا” [السنن الکبری للبیہقی، ج: 8، ص: 63، کتاب الجراح الحدیث: 15934 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]
جو ہمارا ذمی ہوا اس کا خون ہمارے خون اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے۔

معترضہ آیات جہاد قسطِ  جاری۔۔۔۔

 

معترضہ آیاتِ جہاد قسط اول یہاں پڑھیں

شیئر کیجیے

Leave a comment