یوم عاشورہ کی تاریخی حیثیت
محمد ہاشم ازہری
متعلم! جامعہ ازہر، قاهرہ، مصر
دسویں محرم الحرام کا دن اسلامی تاریخ میں ایک عظیم ياد گار دن ہے۔ یہ دن دو ایسے عظیم الشان واقعات کی یاد دلاتا ہے جو حق و باطل کی معرکہ آرائی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ پہلا یہ ہے کہ جب فرعون کا ظُلم و ستم اور جھوٹی خدائی کا سلسلہ عروج کو پہنچا تو اللّٰہ تعالیٰ نے فرعون کی اصلاح و تنبیہ کے لئے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظُلم و ستم سے نِجات دلانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معبوث فرمایا .
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو راہ راست پر لانے کی پوری جتن کی ، نو عظیم الشان معجزات بھی دکھائے پھر بھی وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آیا.
نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لےکر دریا پار کر گئے اور فرعون اور اس کا لشکر پیچھا کرتا ہوا دریا میں اُترا تو ڈوب گیا. فرعون کی لاش آج بھی قاھرہ کے قومی میوزیم میں نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نِجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ غرق آب ہوا تھا وہ یہی عاشورہ کا دن تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطورِ شکرانہ یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھاتھا۔ اس لیے یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انھوں نے جوابا کہا کہ جب اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے عذاب سے نجات دلائی تو حضرت موسیٰ نے بطورِ شکرانہ آج کا روزہ رکھا۔اس لیے ہم بھی آج کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ موسیٰ کی روایت پر عمل کرنے کے زیادہ حقدار ہم ہیں اس لیے آپ نے صحابہ کرام کو یوم عاشورہ کے روزہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع میں یہود کے طرز عمل کو دیکھ کر یوم عاشورہ کا روزہ شروع کیا ہو ۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام مکہ میں بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ بلکہ قریش یعنی مشرکین مکہ بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے لیکن ان کے روزہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس دن کعبہ شریف پر غلاف چڑھایا جاتا تھا ۔
جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺنے عاشورہ کے روزے کا باضابطہ حکم فرمایا اور مدینہ اور اطراف میں سارے مسلمان اس روزے کا اہتمام کرتے تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہو گئے تو پھر آپ ﷺ نےعاشورہ کے روزے کو اختیاری بنا دیا، جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحيح بخاری ) البتہ آپ ﷺ خود اہتمام کے ساتھ رکھتے رہے اور اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام فرماتے رہے ۔
یوم عاشورہ کی فضیلت کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"یوم عاشورہ کے روزے کا اجر گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے” (صحیح مسلم)
دسویں محرم الحرام کا دوسرا یادگار واقعہ شہادت امام حسین ہے، یہ اسلامی تاریخ میں ایسا المناک حادثہ ہے کہ قیامِ قیامت تک اُمت مسلمہ اس کا صدمہ سہتی رہے گی. حضرت امام حسین، جگر گوشه رسول، فاطمہ زہرا کے لعل اسی دن حق کی گواہی دیتے ہوئے میدانِ کارزار میں شہید ہو گیے. دسویں محرم الحرام کا یہ دن حضرت امام حسین کی شہادت کو اس طرح زندہ و تابندہ کر دیتا ہے جیسے یہ مقدس لہو آج بھی ترو تازہ اور گرم ہو ، حضرت امام حسین کی شہادت پر جو لہو بہا ہے وہ آج بھی مسلمانوں سے آنسوؤں کی شکل میں خراج عقیدت وصول کرتا ہے اور کرتا رہےگا ۔ مگر ذرا سوچیں کہ اِمام حسین نے کس بات کے لیے جنگ کا فیصلہ کیا،؟ کس چیز کے لیے جان دی؟، کس مقصد کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا ؟ وہ مقصد صِرف یہ تھا کہ خلافت اللّٰہ تعالیٰ کی امانت ہے، وراثت سے اُس کا کوئی تعلق نہیں، اُس کا تعلق استحقاق سے ہے ۔یقینا کربلا کا واقعہ ہمیں حق و باطل کی جنگ میں استقامت اور صبر کا درس دیتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ حق کی راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
بلا شبہ شہادت اسلام میں ایک عظیم مرتبہ اور مقام رکھتی ہے۔ شہید وہ عظیم ہستی ہے جو اللہ کے راستے میں اپنی جان قربان کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کو زندہ قرار دیا ہے اور فرمایا:
"اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں” (سورۃ البقرہ: 154)
نبی کریم ﷺ نے شہیدوں کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ”جنت میں شہیدوں کا مقام سب سے بلند ہے”
اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہئے بلکہ ان کے اصولوں اور کردار کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے۔ یوم عاشورہ ہمیں اللہ کی رضا کی خاطر ہر قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔
یوم عاشورہ کی فضیلت اور شہیدوں کی شان ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایمان کی راہ میں استقامت اور قربانی کا مقام بہت عظیم ہے۔ ہمیں اپنے اعمال اور کردار کو اس دن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم بھی شہیدوں کے نقش قدم پر چل سکیں اور اللہ کی رضا حاصل کرسکیں۔
دسویں محرم الحرام کا دن حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی کربلا میں دی گئی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دن کے ساتھ جڑی بعض غیر شرعی رسوم و رواج اور بدعات نے اس کی اصل روح کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
حضرت امام حسین کی شہادت کا تقاضہ سینہ کوبی اور گریہ و زاری نہیں ہے بلکہ اس جذبہ اور عزم و حوصلہ كو پیدا کرتاہے جو حق کی حفاظت کے لئے ضروری ہے ۔ اور اس سنت کو پیدا کرتا ہے جس پر امام حسین نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اس پیغام کو عام کرتا ہے جس کے لئے اِمام عالی وقار نے جام شہادت نوش فرمایا ۔ محرم اور یوم عاشورہ کی صحیح تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہئے۔ اس دن روزہ رکھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، دعا و مناجات کرنا اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے۔ اور حضرت امام حسین کی حقیقی تعلیمات اور قربانیوں کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اس طرح ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکیں گے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔