محبتِ وطن ایک جائزہ احادیث کی روشنی میں
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار نہیں سکتی، اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔
نیز وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے، کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔
اس حوالے سے قرآن حکیم کی سب سے معروف اور مسنتد لغت یعنی المفرادت کے مصنف امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’محاضرات الأدباء (2:652)‘ میں لکھا ہے :لَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوْء. وَقِيْلَ: بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ. اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہوجاتے (کہ لوگ انہیں چھوڑ کر دیگر اچھے ممالک میں جابستے، اور نتیجتاً وہ ممالک ویرانیوں کی تصویر بن جاتے)۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطنوں کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔
اسی طرح حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں: (۱) آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی (۲) آپ کو اذیت دی جائے گی (۳) اور آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔
اس پر امام سہیلی (حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ کے تحت لکھتے ہیں : تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا:أَوَ مُخْرِجِيَّ ؟کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ.اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔(الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185)
*ہجرت کے وقت وطن سے اظہار محب ؛*
اور یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے (صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا اظہار فرمایا) فرماتے ہیں: تھا:مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ.(سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926) یعنی تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔
*وطن میں داخل ہونے کے لئے تیز سوار؛*
نیز (جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنایا) سفر سے واپسی پر اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز فرمایا کرتے، گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا.(صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787)
یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ.(فتح الباری، 3: 621) یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
*وطن کی مٹی سے محبت ؛*
اسی طرح وطن سے محبت کا ایک اور سنت نبوی ثابت ہوتی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بِسْمِ اﷲِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.(صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413) کہ ﷲ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔
یعنی وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔۔۔۔
*ایک ضروری ازالہ ؛*
اس حوالے سے ایک اِشکال کا اِزالہ بھی اَز حد ضروری ہے وہ یہ کہ (حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ . وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔) یہ حدیثِ نبوی نہیں ہے بلکہ من گھڑت روایت ہے۔ملا علی القاری نے ’المصنوع (ص:91، رقم:106)‘ میں لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کے ہاں اِس قول کی کوئی اَصل نہیں ہے۔
نیز فتاویٰ رضویہ میں مرقوم ہے :امام بدرالدین زرکشی نے اپنے جز اور امام شمس الدین سخاوی نے مقاصد حسنہ اور امام خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی نے الدر المنتشرہ میں بالاتفاق اس روایت کو فرمایا:لم اقف علیه میں اس سے آگاہ نہیں ہوسکا۔ امام سخاوی نے اس کی اصل ایک اعرابی بدوی اور حکیمان ہند کے کلام میں بتائی کما یظھر بالرجوع الیه جیسا کہ اس کی طرف رجوع سے ظاہر ہے۔(ج 15، ص297، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہرحال! وطن سے محبت ایمان کی نفی نہیں کرتی (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا)۔
*الحاصل :* ہمیں اپنے وطنِ عزیز(ہندوستان) سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔۔۔۔وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک نہیں بلکہ ہمارے گفتار و کردار سے اس کی جھلک نظر آنی چاہیے،
نیز ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز (ہندوستان) کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے وطن (ہندوستان) کو تا قیامت سلامتی بخشے آمین ۔ بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
*اخیر میں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا* 💫🌹🇮🇳🌙
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔۔۔شائع کردہ: ۱۷/جولائی/۲۰۲۲)*