خدا غارت کرے ایسی خانقاہیت اور گروہیت کو
از قلم:مشتاق نوری
پہلے نظام خانقاہی سر تا پا روحانی ہوا کرتا تھا۔اس پر جنید و بایزید اور شبلی و سقطی کا رنگ غالب ہوا کرتا تھا۔لوگ وہاں جاکر خدا بھی پاتے تھے اور خدائی بھی۔وہاں کسی کی ان دیکھی نہیں ہوتی تھی۔حقداروں کو ان کا حق پہلی فرصت میں مل جایا کرتا تھا۔چاہے وہ خانقاہ سے جڑے ہوں یا باہر سے ہوں۔خانقاہیں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتیں۔دریا دلی سب کو عام تھی۔
بااخلاق و مخلص ناقدین کا اکرام ملحوظ و محفوظ ہوتا تھا۔چاپلوس قسم کے لوگوں کی تو پہلے ہی شناخت ہوجاتی تھی۔وہاں خوشامد پسند لوگ کبھی سراہے نہیں گیے۔جب تک خوف و خشیت کا اصول زندہ رہا سب دیانت دارانہ طریقے سے ہوتا گیا۔اسی لیے خانقاہیں مرجع خلائق رہیں۔اور فیض یابی کو لوگ ٹوٹ پڑتے رہے۔
مگر جیسے ہی حب دنیا کے چکر میں خطوط جنید و بایزید و طرز کرخی و ہارونی سے انحراف سرزد ہوا سارا سسٹم چرمرا گیا۔مانو روحانیت سلب کر لی گئی ہو۔تقاضاۓ شرع طاق پہ رکھ دیا گیا ہو۔ایسی بے کیف صورت حال میں خانقاہیت و ارادت کو بخشش و خدا رسائی کا معیار سمجھنا ایک دینی غلطی ہے۔اسی کا نتیجیے کہیے کہ آج جہاں اس سسٹم کے راستے تقدس و تبرک کے نام پر درجنوں خرافات کو دین میں کھپایا جارہا ہے وہیں اس نے علما ذوی الاحترام سے ان کا کمایا گیا حق بھی چھین لیا ہے۔اسے حق دبانا نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ لوگ اپنے پیر خانے کے کتے،بلی، بکری کو بھی القاب و آداب سے پکارتے ہیں۔مریدین بڑی عزت سے نام لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ نسبت سے شے ممتاز ہوجاتی ہے۔
اسی نسبت کے اکسانے پر جیلان کے ایک لاغر کتے نے جام کے جواں شیر کو ڈھیر کر دیا تھا۔اس نسبت و قرابت کا کمال دیکھیں کہ پیر کے ڈیرے سے ایک بکری بلی کو تو عزت مل گئی مگر نبی کے وارث، دین کے مبلغ علما کی کما حقہ تو کجا، واجبی قدر بھی نہ ہوسکی۔کچھ سال قبل ایک خانقاہ کے عرس میں جانا ہوا۔ کچھ ہی مہینے قبل صاحب سجادہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ان کی غیر موجودگی میں ایک اونچی جگہ پر بڑے سلیقے سے ان کا مسند لگایا گیا تھا۔لوگ مؤدب آتے تھے اور بوسہ دے کر الٹے پھر جاتے تھے۔متعلقین و متوسلین مسند کے ساتھ "شریف” کا لاحقہ ضرور لگاتے تھے۔حد تو تب ہوگئی جب پیر صاحب کے "پیک دان” کے ساتھ بھی بےچارے "شریف” کو جبرا قہرا دھکیلا جارہا تھا۔ان کے مسند و پیک دان کی اس قدر تعظیم و تکریم دیکھ میرے دل میں بھی پیر بننے کی تمنا جاگنے لگی تھی۔
اس سسٹم کا سب سے برا اثر یہ ہوا کہ عامی طبقہ لاعلمی میں متأثر ہوا اور غلو کر گیا لیکن علما بھی اس مرض سے متأثر ہوۓ بنا نہ رہ سکے۔آج مروجہ خانقاہیت نے علما کے درمیان بھی کس قدر اونچ نیچ کا بیج بو دیا ہے کہ آج کسی خانقاہ کا فاسق و فاجر بھی انتقال کر جاۓ تو آپ نے نوٹس کیا ہوگا کہ پہلے یہی علما کیسے کیسے فردوسی ترکیب والے عنوان لگاتے ہیں۔رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمۃ، اخلدہ اللہ فی الجنۃ، اور بھی ان جیسے اونچے عہدوں والے دعائیہ کلمات لکھنے لگتے ہیں۔وہیں کسی عالم باعمل کا انتقال ہو جاۓ تو یہی لوگ محض مرحوم لکھ کر نکل جاتے ہیں۔یہ کتنی بڑی نا انصافی ہے کہ زندگی بھر خدمت دین ہی جن کا اوڑھنا بچھونا رہی، جنہیں آخری دم تک ترویج دین مطلوب رہی انہیں صرف مرحوم تک رکھ دیا جاۓ۔اور بعض خانقاہوں کے البیلے و چھیل چھبیلے قسم کے بانکے نوجوان جن کے کھاتے میں سواۓ پیری مریدی اور بڑے خانوادے سے وابستگی کے علاوہ حسنات نام کی کوئی بھی چیز کسی عام مرید سے بھی زیادہ نہ ہو ان کے لیے رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمۃ، نور اللہ مرقدہ وغیرہ لکھا بولا جاۓ؟پھر شان سے ان کا "عرس پاک” منایا جاۓ۔اور ایک عالم دین کو صرف چہلم یا برسی تک رکھ دیا جاۓ، یہ فرمان خانقاہی تو ہوسکتا ہے دین نہیں۔ آخر بڑے بڑے علما و ائمہ کے ایام وصال کو ایام برسی کے ساتھ کیوں پابند سلاسل کیا جاۓ؟حیرت ہے کہ اس غیر دینی مزاج کو اس قدر فروغ کس حدیث،کس نص کے تحفظ و دفاع کے لیے ملا ہے؟ خدا جانے۔
گاہے گاہے یہ مذہبی طبقہ بھی کشادہ ظرفی دکھاتا ہے مگر اس کی کنڈیشن ہے۔ یہ کسی عالم کو تبھی رحمۃ اللہ علیہ یا ان کے یوم وفات کو یوم عرس لکھتا ہے جب وہ بڑی شہرت کا حامل ہو۔ملک بھر میں جانا جاتا ہو۔ورنہ گوشہ نشیں علما جن کی دوڑ صرف مسجد تک ہے وہ صرف "مرحوم” کے ہی لائق رہتے ہیں۔چاہے سجود نماز سے پھیلے ان کے داغ جبیں کا نور ان کی آنکھیں چندھیا ہی کیوں نہ دے۔اس پینڈیمک دور میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے اچھے بڑے علما و صوفیا راہئ ملک عدم ہوۓ ان میں چھوٹے نام والے غیر شہرت یافتہ علما و ائمہ بھی تھے مگر ہم نے یہاں بھی اسی طرح کا دعائیہ بھید بھاؤ جاری رکھا۔
اور جب یہی خانقاہیت خط گروہیت کراس کر جاتی ہے تب ہم اور آپ جیسے مولوی تو ان کے سامنے کسی کھیت کی مولی بھی نہیں لگتے۔تب ہمیں بالکل ہی یہ لائق اعتنا نہیں جانتے۔اور جب کوئی مشربیت زدہ شخص گروہیت کا بھانگ زیادہ پی لیتا ہے تب اس کے سامنے فاضل بریلوی جیسے عبقری و نابغۂ روزگار عالم بھی مرحوم تک ہی رہ جاتے ہیں۔حق دبانے کا یہ ناجائز و حرام کام بڑے ہی حلال و مقدس طریقے سے کیا جاتا ہے۔اور ہمارے اس بھولے پن کا جگر دیکھیے کہ ہم اس دھاندلی پر بھی خوش رہتے ہیں۔لبوں حرف شکوہ لانا بھی خطا سمجھتے ہیں۔ خدا غارت کرے ایسی خانقاہیت اور گروہیت کو۔آج پھر سے خانقاہ و درگاہ کو جنید و شبلی کے زمانے میں لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ علما کی قدریں بحال ہوسکیں۔