جشن مناؤ سال نو کے …!
از قلم: مفتی انصار احمد مصباحی
جو قوم اپنے ملک میں تعلیم میں پھسڈی ہے ، نوکریوں میں سب سے پیچھے ہے ، سیاست میں زیرو ہے ، اپنے خون پسینے بہاکر ، زائیداد لٹا کر، جانیں قربان کرکے ملک کو آزاد کرنے کے بعد جو قوم خود ہی ملک دشمن عناصر کے آلہ کار بن گئی ، جو قوم تعداد میں بیس کرور میں ہونے کے باوجود اس دہا نے پر کھڑی ہے، جہاں وہ اپنی مرضی سے عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں نہ کار و بار کر سکتے ہیں، نہ ہی اپنی مرضی سے بچوں کی شادیاں کر سکتے ہیں۔ وہ سال نو کا جشن نہ منائے تو کیا کرے؟
جس قوم کے پورے وجود کو مٹانے کا سر عام اعلان ہوچکا ہے ، وہ جشن نہ منائے تو کیا کرے ؟
جس قوم کے نبی ، ان کے رگوں میں خون بن کر گردش کرنے والی ہستی ، جان کائنات ﷺ کو ریلیاں نکال کر گالیاں دی جائیں ، پھر بھی اس کے سر پر جوں تک نہ رینگیں ، وہ قوم واقعی حق بجانب ہے کہ کسی سال نو کا دھوم دھام سے جشن منائے۔
جن کے مالکانہ حقوق چھیننے کے لئے قانون بن رہے ہیں ، تعلیم گاہوں میں جن کی مذہبی تعلیم کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ، اسکولی نصاب میں جس قوم کے پیش روؤں کو غنڈا کہا جا رہا ہے ، وہ جشن نہیں منائے گی تو اور کیا کرے گی!
جس ملک کا وزیر اعظم ، سب سے بڑی اقلیت کو ان کے مخصوص لباس سے پہچانے ، ملک کا وزیر داخلہ احتجاج میں بیٹھی گھر کی خواتین کو کرنٹ کا جھٹکا دینے کی دھمکی دے ، بر سر اقتدار پارٹی کا وزیر ”گولی مارو سالوں کو“ کی دھمکی دے ، اس عظیم جمہوریت میں رہنے کے لئے ”سال نو کا جشن“ تو بنتا ہے۔
قوم کے نوجوانو! تمہاری مساجد نشانے پر ہیں ، مدارس نشانے پر ہیں ، تمھارے علما مخالفین کو دہشت گرد نظر آتے ہیں ، عبادت گاہیں دہشت کے اڈے نظر آتے ہیں، تمھارے خلاف ایسی پلاننگ کی جا رہی ہے کہ اگر وقت رہتے ہوش میں نہ آئے تو تمھیں ووٹ کے حقوق سے محروم کر دیا جائے گا ، دوسرے درجے کا شہری قرار دے دیا جائے گا ، نکاح ، وراثت ، تعدد ازواج ، عبادت ، تعلیم وغیرہ کے سارے پرسنل لاء کالعدم قرار دے دیے جائیں گے، بزرگان دین ، مشائخ عظام ، سلاطین اسلام اور دوسرے مذہبی رہنماؤں اور پیش روؤں کو لٹیرے ، آتنگ واد اور غداران وطن گھوست کر دیا جائے گا، یہاں تک کہ مذہبی کتابوں کی اشاعت ، مذہبی تعلیمات کی ترسیل اور تبلغ دین تک پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ہمیں بچے حکومت کی اجازت سے پالنے ہوں گے ، کھانے پینے میں ہم حکومتی اجازت ناموں کے محتاج ہوں گے۔ ہماری تعلیم گاہیں ، عبادت خانے ، گھر بار سب حکومت کے زیر اثر ہوں گے۔ وقت پر کوئی تدبیر نہ کی گئی تو ان خدشات پر عملی کوششیں جاری ہیں۔ اب چاہے تو سب کچھ بھلا کر مناؤ جشن سال نو کے۔
کیا تم اتنی جلدی بھول گئے ! کورونا نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، کار و بار ٹھپ ہے ، تنخواہیں رکی ہیں ، نئی نوکریاں عنقا ہیں ، مہنگائی آسمان چھو کر اب آگے کی اڑان بھر رہی ہے۔ دینی تعلیم گاہیں دو سالوں سے مقفل ہیں۔ کتنے علما و حفاظ سریا سیٹرنگ ، حمالی ، ویٹرنگ ، سلائی کڑھائی وغیرہ کاموں سے جڑ گئے ۔ پھر بھی تم خوش ہو تو تمھیں جشن منانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اچھا! شامیں رنگین کرنے سے پہلے ذرا یہ بتا دینا! تمھیں کس چیز کی خوشی ہے؟ سال 2021ء گزر جانے کی خوشی یا 2022ء آ رہا ہے، اس کی؟ آنے والا سال ابھی دیکھا نہیں تو خوشی کیسی ؟ اور گذشتہ سال گذر گیا تو خوش ہونا کیسا! زمانہ اللہ کا ہے ، وقت کو برا بھلا کہنا کیسا! زمانے نے کسی کا کیا بگاڑا، وہ تو ہمیشہ سے اپنی ہی رفتار چلتا ہے، وہی صبح ، وہی شام ، وہی راتیں ، وہی سردی گرمی برسات، وہی پت جھڑ ، ساون ، بہار۔ سارے آفات تو ہمارے اپنے کیے دھرے ہیں۔ اپنے اوپر ظالم حکمراں مسلط کر لیا ، وہ مظلومانہ قانون بنا رہا ہے ؛ قدرت کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش کی گئی تو دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں اور آسمانی قہروں کا سامنا ہوگیا ؛ غیر ضروری اور لایعنی تجربات کی گئیں تو عالمی وبا کا منہ دیکھنا پڑا ؛ فضول خرچیوں میں اللہ کی نعمتیں پانی کی طرح بہائی گئیں ، نتیجتا آج پوری دنیا مہنگائی کی مار جھیل رہی ہے۔
بس ، سال نو کے جشن منانے سے پہلے ، تھوڑی دیر کے لئے فلسطین کے معصوم بچوں کو یاد کر لینا، تری پورہ کے مظلوموں کو یاد کرلینا ، جیلوں میں ”گناہ بے گناہی“ کی سزا کاٹ رہے جوانوں کو یاد کر لینا!
خیر چھوڑو… !
جب آپ نے جشن منانے کا پورا مَن بنا ہی لیا ہے تو ہم آپ کو بہ زور شمشیر نہیں روک سکتے۔ بس آخری بات سن لیجیے!
پونہ (مہاراشٹر) میں ہماری مسجد کی چاروں طرف جدید سہولیات سے لیس مہنگی مہنگی سوسائٹیاں موجود ہیں۔ اکثر فلیٹ مالکان کے پاس ایک سے زائد فور وہیلر ہیں، سب کے سب بزنیس مین ہیں یا بجاج، ٹاٹا ، تیلکو ، کے ایس بی، ویلوو، الفا لیول، مہیندرا جیسی بڑی بڑی کمپنیوں میں اچھے عہدوں پر فائز۔ ان کے گھروں میں جھاڑو پوچھا اور دوسرے کاموں کے لئے چھوپڑپٹیوں اور چالوں سے مسلم خواتین اور بچیاں آتی ہیں۔ میں آگے کچھ نہیں بتا سکتا۔ آگے کی کہانی ساحر لدھیانوی کے ”صبح نوروز “ کے ان اشعار جیسی ہی ہے۔ ؎
نکلی ہے بنگلے کے در سے
اک مفلس مزدور کی بیٹی
(میں نے دہقان کی جگہ مزدور کردیا)
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مٹھی میں اک نوٹ دبائے
جشن مناؤ سال نو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناؤ سال نو کے …!