بھارتی مسلمان کہاں جائیں؟
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
سوال:جب متحدہ بھارت کے مسلمانوں نے اپنے لئے پاکستان کے نام سے ایک وطن لے لیا ہے تو انہیں بھارت میں رہنے کا کون سا حق ہے؟مسلمانوں ہی کے سبب بھارت کی تقسیم ہوئی؟
جواب:بھارت کے مسلمانوں کے مطالبہ پر ملک کی تقسیم ہرگز نہیں ہوئی۔انگریزی حکومت کے عہد میں 02:ستمبر 1946 کو کانگریس اور مسلم لیگ نے مشترکہ عبوری حکومت تشکیل دی۔کانگریس ومسلم لیگ کا آپس میں نباہ نہ ہو سکا۔تب کانگریس نے ملک کی تقسیم کا نظریہ قبول کر لیا اور برطانوی وائسرائے کے سامنے اپنی رضامندی ظاہر کی۔
گاندھی جی کا نظریہ ہمیشہ تقسیم کے خلاف تھا۔نہرو اور پٹیل کی رضامندی کے بعد گاندھی جی کو بھی راضی ہونا پڑا۔
مسلم لیگ نے گرچہ تقسیم کا مطالبہ کیا تھا,لیکن مسلم لیگ کے کہنے پر ملک تقسیم نہیں ہوا ہے۔کانگریس کی رضامندی کے بعد تقسیم کی کاروائی شروع ہوئی۔
بھارت کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دے کر فتح یاب کیا تھا,کیوں کہ اس وقت جدا گانہ انتخاب کا قانون تھا۔مسلم علاقوں میں مسلم پارٹی ہی کے نمائندے کو الیکشن میں امیدوار بنایا جا سکتا تھا۔
1946کے الیکشن میں مرکزی اسمبلی(موجودہ عہد میں پارلیامنٹ کہا جاتا ہے)کے الیکشن میں ملک بھر سے مسلمانوں کے لئے 30:سیٹ ریزرو تھی۔مسلم لیگ نے 30:سیٹ جیت لی۔
ملک بھر کی صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کے لئے 495:سیٹ ریزرو تھی۔مسلم لیگ نے 434:سیٹ پر فتح حاصل کی۔باقی سیٹوں پر دیگر مسلم پارٹیوں نے جیت حاصل کی۔
بھارتی مسلمانوں نے مسلم لیگ کو اپنی ہمدرد پارٹی سمجھ کر جیت دلائی تھی۔اس کے بعد کانگریس ومسلم لیگ کی مشترکہ عبوری حکومت 02:ستمبر 1946 کو تشکیل پائی۔
مشترکہ عبوری حکومت میں دونوں پارٹی اپنی بالا دستی کی خواہش مند رہتی۔مسلم لیگ کے پاس بھی قابل اور دانشور لیڈران تھے۔کانگریس کو اپنی بالا دستی اور ترجیحی کیفیت حاصل کرنے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔انجام کار کانگریس نے تقسیم کا نظریہ قبول کر لیا اور موجودہ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو اپنی رضامندی سے مطلع کیا۔03:جون 1947 کو تقسیم ہند کا اعلان کر دیا گیا۔
تقسیم کے وقت بھارت اور پاکستان دونوں نے اپنی اقلیتوں کو اپنے یہاں رہنے کی ترغیب دی۔انہیں دیگر اقوام کے مساوی حقوق دینے کا وعدہ کیا۔
دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے دہلی میں 08:اپریل 1950 کو نہرو لیاقت معاہدہ ہوا۔بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے دستخط ہوئے۔اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے دونوں ملکوں میں اصول وضوابط بنائے گئے۔
اگر تمام مسلمانوں کو پاکستان جانے کی بات ہوتی تو پاکستان کو مختصر سا حصہ نہیں ملتا,بلکہ آبادی کے تناسب سے زمینی حصوں کی تقسیم ہوتی۔
اگر ملک میں تیس فی صد مسلمان اور ستر فی صد ہندو ہوں تو زمینی حصہ کا تیس فی صد پاکستان کو دیا جاتا۔کانگریس نے ملک کی تقسیم کی تھی,تاکہ آزادی کے ساتھ ملک پر حکومت کر سکے۔
اگر عام مسلمانوں کے مطالبے پر تقسیم کا معاملہ درپیش ہوتا,تب بھارت کے عام مسلمانوں کو تقسیم کے وقت ہی کہا جاتا کہ آپ کا مطلوبہ وطن آپ کو دے دیا گیا۔آپ اپنے وطن چلے جائیں۔
چوں کہ یہ تقسیم سیاسی پارٹیوں کے باہمی اختلاف کے سبب سے ہوا تھا,اسی لئے پاکستان نے بھی اپنے اقلیتی طبقات یعنی ہند,بودھ, سکھ,جین,عیسائی وغیرہ کو پاکستان سے جانے کی بات نہیں کہی۔
نہ بھارت نے اپنی اقلیتی اقوام مسلم,سکھ,بودھ,جین,عیسائی وغیرہ کو بھارت چھوڑنے کہا۔
تقسیم کا مطلب صرف یہ تھا کہ متحدہ انڈیا کی دونوں فاتح پارٹیاں یعنی کانگریس اور مسلم لیگ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں اور اپنے اپنے علاقوں میں امن وسکون کے ساتھ حکمرانی قائم کریں۔آج پاکستان میں نہ مسلم لیگ کی حکومت ہے,نہ بھارت میں کانگریس کی حکومت۔
تقسیم کے وقت ہی دونوں ملکوں نے اعلان کیا تھا کہ دونوں ملک سیکولر ہوں گے۔کسی مذہب,قوم یا نسل کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
بھارت میں جب بی جے پی برسر اقتدار آتی ہے,تب بھارت کو”مسلم مکت بھارت”بنانے کا چرچا ہونے لگتا ہے۔
بی جے پی کو چاہئے کہ وہ کانگریس سے پوچھے کہ اس نے ملک کو تقسیم کیوں کیا؟ تقسیم کے وقت مسلمانوں کو پاکستان کیوں نہیں بھیجا؟
مسلم عوام سے سوال کرنا یا ملک کے مسلمانوں کو پریشان کرنا ہر اعتبار سے غلط ہے۔حکومت وبادشاہت آتی جاتی رہتی ہے۔کب کون ہار جائے؟کچھ پتہ نہیں۔
الحاصل نہ عام مسلمانوں کے مطالبے پر ملک تقسیم ہوا,نہ ہی مسلم لیگ کے مطالبے پر۔ملک کی تقسیم کانگریس کی رضامندی پر ہوئی تھی۔سوالات کانگریس سے کئے جائیں۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ;30:مئی 2021