بابِ اخلاقیات کا اِک منفرد واقعہ
تحریر:مسرور احمد قادری
حضور علیہ السلام کی طرز زندگی اور آپ کا اخلاق نہایت اعلیٰ و ارفعہے جس کی نظیر تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی آپﷺ ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب سے یکساں برتاؤ رکھتےمیں تھے
چناں چہ حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
زاہر بن حرام نامی ایک دیہاتی تھے انہیں آقا کریم سے بہت لگاؤ تھا حضور کو بھی ان سے کافی انس و محبت تھی اسی محبت کی بنا پر آپ فرمایا کرتے کہ ” زاہر میرا بادیہ نشیں ہے اور میں اس کا شہری دوست” زاہر جب بھی حضور سے ملاقات کرنے مدینہ پاک آتے تو اپنے ساتھ گھی اور پنیر وغیرہ لایا کرتے تھے واپسی کے وقت حضور بھی ان کو تحائف دے کر رخصت فرمایا کرتے ایک دفعہ زاہر حاضر ہوئے تو کاشانہ نبوت میں حضور کو نہ پاکر بازار سامان فروخت کرنے چلے گئے حضور کو زاہر کی خبر ملی تو آپ ان کو تلاش کرتے بازار پہنچ گئے
ایک جگہ دھوپ کی تپش سے پسینے میں شرابور اور گرد و غبار سے آلود کپڑوں میں کھڑے نظر آئے
آقا کریم نے خوش طبعی فرماتے ہوئے پیچھے سے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی آنکھ بند کر لی زاہر نے کہا کون…؟
حضور خاموش رہے پھر زاہر نے کہا کون..؟ حضور بدستور خاموش رہے حتی کہ زاہر نے آپ کو کنکھیوں سے پہچان لیا
پھر کیا تھا فرط محبت میں حضور کی ہاتھوں کے گرفت میں زاہر مچلنے لگے
حضور نے از رہ مزاح فرمایا یہ غلام کون خریدے گا؟
یہ سن کر زاہر نے عرض کیا…. حضور تب تو اب بہت کم قیمت ملے گی کیونکہ مجھ جیسے معمولی غلام کو بازار میں کوئی بھی اچھی قیمت نہیں دے گاجواباً حضور نے فرمایا…” زاہر اللہ کے نزدیک تم کم قیمت کے نہیں ہو بلکہ اللہ کے یہاں تم بڑی قیمت والے ہو….” { منزلوں کے نشاں }
عزیزانِ محترم: حضور کا اخلاق دیکھئے کہ ایک شخص کو تلاشتے بازار پہنچ گئے، گرد و غبار آلود کپڑے اور پسینے سے شرابور شخص سے بھی اُسی خوش طبعی اور محبت سے ملے جیسے دوسرے رؤساء عرب سے ملتے
حضور کے اسی اخلاق و عادات کی بنا پر غربا و مساکین آپ کی جانب کھینچتے چلے آئےآج ہم اپنی طرزِ زندگی کا جائزہ لیں تو ہم عمدہ لباس، مال و دولت، گاڑی و بنگلہ دیکھ کر سامنے والے کو عزت دیتے ہیں (الا ماشاء اللہ) اور اپنے سے کم درجے والے کو وہ عزت نہیں دیتے جس کا وہ حقیقی مستحق ہوتا ہے
یاد رہے عمدہ لباس اور مال و دولت سے انسان معزز نہیں ہوتا بلکہ خلوص و محبت انسان کی اصل پہچان ہوتی ہے
اس لئے ہم حضور کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنا کر اونچ نیچ کو ختم کریں اور ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ویسا ہی اخوت و محبت والا معاملہ قائم کرے جیسا عہد نبوی میں حضور اکرم اور صحابہ کے درمیان تھا…..