مرکزی حکومتیں اور عوام کا بدلتا رنگ و روپ
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ سی اے اے(CAA)کا جن پھر بوتل سے باہر آنے کو بے چین ہے۔11:دسمبر 2019 کوشہریت ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس ہوا۔02:دسمبر 2019 کو یہ بل لوک سبھا میں پیش ہوا تھا۔اسی دن سے احتجاج ومظاہرے شروع ہو گئے۔
کئی ماہ تک مسلمان اور دوسرے بھارتی عوام سڑکوں پر بیٹھے احتجاج کرتے رہے۔جابجا شاہین باغ بنے۔قانون کی منسوخی کا مطالبہ ہوتا رہا۔حکومت خاموش پڑی رہی۔
فروری 2020سے کورونا نے کہرام مچانا شروع کیا۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی لاک ڈاؤن لگا۔شاہین باغ کے شاہینوں کو اپنے گھر لوٹنا پڑا۔بعض شیر صفت بچوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ہم ان کے لئے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔وہ قوم کے لئے آواز بلند کر رہے تھے۔
کچھ مدت بعد مرکزی حکومت کسان بل لے کر نمودار ہوئی۔مظاہرے شروع ہوئے۔کئی ماہ گزر گئے۔کسان آندولن جاری ہے۔حکومت خاموش ہے۔موجودہ حکومت پبلک کی آواز پر کان دھرنا نہیں چاہتی۔خواہ عوام جس قدر شور مچائیں۔
بی جے پی مسلم ہندو نفرت انگیزی کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔اس کے سبب ملک بھر کا ماحول وحشت ناک رہتا ہے۔
ساؤتھ کرناٹکا(ضلع منگلور,اڈپی,کاروار وغیرہ) کا علاقہ ہندتو سے بہت متاثر ہے۔یہ ساحلی علاقہ ہے۔منگلور سے متصل ریاست کیرلا کا ضلع کاسرگوڈ ہے۔اس کے بعد ضلع کنور,پھر ضلع کالی کٹ,پھر ضلع مالا پورم ہے۔مذکورہ اضلاع اور ضلع وائناڈ اور ضلع پالاکاڈ کا مجموعہ”مالابار”کہلاتا ہے۔ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔یہاں کے مسلمانوں کو مالاباری اور ملیباری کہا جاتا ہے۔
منگلور سے متصل کاسرگوڈ ہے,اس لئے وہاں ہندتو کے کچھ آثار داخل ہو چکے ہیں۔کیرلا کے دیگر علاقوں میں آر ایس ایس کو قبولیت حاصل نہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ایک بھاجپائی ایم ایل اے کاسرگوڈ کے علاقائی حلقہ سے جیت گیا تھا۔اپریل 2021کے اسمبلی الیکشن میں ایک بھی بھاجپائی جیت نہیں سکا۔
لوک سبھا الیکشن:2009کے موقع پر غیر مسلموں کو یقین تھا کہ اس بار بھاجپا جیت جائے گی۔اڈوانی کو وزیر اعظم بنانے کا خواب تھا,لیکن کانگریس جیت گئی۔اس وقت ساؤتھ کرناٹکا کے ہنود ایسے حواس باختہ ہوئے کہ جیسے کوئی بہت بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہو۔
جب بھی بھاجپا مرکزی حکومت پر قابض ہوتی ہے,ملک بھر کے اہل تعصب ہنود میں عصبیت کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ہر محکمہ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہونے لگتا ہے۔
کانگریس کے عہد میں بھی مسلمانوں پر ظلم وستم ہوتا ہے۔فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں,لیکن بھاجپائی عہد میں قوم مسلم ہر وقت خوف وہراس میں رہتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف عجیب وغریب ماحول بن جاتاہے۔اہل حکومت خاموش بھی رہیں تو اہل تعصب چنگھاڑتے پھرتے ہیں۔یہ کیفیت کسی بھی ملک کی سالمیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ملک بھر میں مسلمانوں کی کوئی سیاسی پارٹی یا کوئی ایسی سماجی تنظیم نہیں جو سیاسی میدان میں مسلمانوں کو گائیڈ کر سکے۔انہیں فکری سہارا دے سکے۔دکھ درد میں انہیں تسلی دے سکے۔
جمعیۃ العلما(دیوبند)خود کو بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تحریک مانتی ہے,لیکن وہ بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔دونوں کے نظریات بھی جداگانہ ہیں۔کبھی کبھی یہ لوگ سیاسی پارٹیوں کے دباؤ میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اہل سنت وجماعت اکثریت اور افرادی طاقت وقوت کے باوجود منتشر ہیں۔بعض سنی تحریکیں وتنظیمیں متعدد محاذ پر نظر آتی ہیں,لیکن انفرادیت میں ضعف وکمزوری ہوتی ہے اور اجتماعیت میں قوت وطاقت۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ:یکم جون 2021