لکشدیپ پر ظالمانہ سیاست
از قلم:مظفر نظامی ثقافی
امن و سکون کو برباد کرنا موجودہ حکومت کا بنیادی فریضہ رہا ہے، اور اس کی مثالیں بہت ملے گی، آج کی تاریخ اور حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی تاریخ میں آپ تقابل کریں تو یہ بات دوپہر کی دھوپ کی طرح واضح ہو جائے گی کہ کتنے ظلم و تشدد کے پہاڑ اس نے ڈھائے ہیں۔
ظلم و زیادتی میں اس کا کوئی حریف نہیں پیدا ہوا۔ مسلمانوں سے قلبی کدورت کی بنا پر اس نے بے تحاشا ظلم ڈھایا، جس کو دیکھنے، سننے کے بعد حیرت و استعجاب سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی۔
تازہ ترین واقعہ جو ابھی سرخیوں میں ہے وہ لکش دیپ کی زرخیز زمین پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں جدید ایڈمنسٹریٹر متعدد یکطرفہ فیصلہ کررہا،اور وہاں کے باشندوں کے چین و سکون، اور ان کی امنگوں کو مجروح کیا جارہا ہے، طرح طرح کے قانون نافذ کرکے ان سے ان کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جارہی، جہاں عرصہ دراز سے شراب نوشی پر پابندی تھی وہاں اس کے لائسنس دئیے جارہے ہیں، یہی ایڈمنسٹریٹر گجرات میں پابندی عائد کیے ہوئےہیں اور یہاں اس کی اجازت اس میں کیا Philosophy ہوسکتی ہے؟
ایک طرف ملک مہلک بیماری میں جھنجھوڑا ہوا ہے، ہر کوئی کھانے پینے کے لیے ترس رہا ہے، ان ساری چیزوں کی پس پشت ڈال کر پھر وہی احمقانہ چال چلی جارہے، پہلے کسی بھی ریاست میں ظالم حاکم کا تعین کرکے وہاں سے سارے امن و سکون، عیش عشرت، اور معاشی، سماجی حالات کو بدتر بنانے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے، جہاں پر سرکاری ملازمت اور ماہی گیری روزگار کا بنیادی ذریعہ ہیں، لیکن ظالم حکومت کے تحت وہاں شیڈ کوسٹ گارڈ ایکٹ کی آڑ میں اس سے وہ چھین لیا جا رہا ہے، اور ملازمت کے طور پر کام کرنے والوں کو برخاست کردیا جارہا ہے،
محکمہ سیاحت سے 190 ملازمین سے ان کی روزی چھین لی گئی، اور یہ جزیرہ چونکہ مرکزی حکومت (سینٹرل گورنمنٹ) کے تحت چلنے والوں میں سے ایک ہے۔ اس وجہ سےان کا ظالمانہ تشدد دیکھ کر وہاں کے لوگوں کی حالت تشویشناک ہوگئی ہیں۔ جہاں کوویڈ کے مریضوں کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی اچانک منتخب شدہ ظالم ایڈمنسٹریٹر کی وجہ سے امراض کے بڑھوتری ہونے لگی۔ وہاں آج تک کوئی کرائم واقع نہیں، لیکن اب وہاں بدامنی، اور دہشت ناک ظروف پیدا کرکے ان سے یہ گھناونا کام کرانے کی سازش کی جارہی تاکہ بدنامی کا سحرہ ان کے سر باندھا جاسکے۔ اور پھر طرح طرح کے قانون نافذ کرکے ان کی جنت کو دوزخ بنادیا جائے۔
اور ان کی شناخت اور ثقافت پر
بیجا سوال اٹھائے جاسکے۔اور ان کو تعلیمی سرگرمیوں سے کوسوں دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہیں، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے اسکولوں پر قفل نظر آنے لگے ہیں۔
لکش دیپ سرخیوں میں ہونے کی وجہ یہاں کی مسلم اکثریت بھی ہے۔ مسلمانوں سے پہلے یہاں بدھسٹ مذہب کے لوگ بستے تھے، لیکن شیخ عبد اللہ جب یہاں پہنچے اور اسلام کی تعلیمات کو جب لوگوں کے سامنے رکھا تو جوق در جوق لوگوں کا ایک ہجوم اسلام کے گوشہ میں داخل ہوگیا یہاں تک کہ دیکھتے دیکھتے یہ پورا جزیرہ اسلام کے منور تعلیم سے روشن ہوگیا،
یہاں تقریباً 36 island ہیں،اس کا ٹوٹل ایریا( 32sq, km) اور یہاں کی پاپولیشن ہے۔ (64,429) اور کیپیٹل Kavaratti ہے۔
اور یہاں بولی جانے والی زبانیں
Malayalam, Jeseri (Dweep Bhasha) and Mahal
عمومی طور پر ملیالم بولی جاتی ہے کیونکہ اس جزیرہ کا تعلق کیرلا سے وابستہ ہے۔ اور ایگریکلچرل میں یہاں ناریل کی زیادتی ہے ایک درخت سے ایک سال میں تقریباً82 ناریل نکلتے ہیں۔
اس طرح یہ مچھلیوں کے کاروبار سے بھی جانا جاتا ہے، 2010 میں یہاں سےسے 12,284 ٹن مچھلیاں پائی گئی تھی، اس طرح ٹرانسپورٹ میں یہاں زیادہ جہازوں کا استعمال ہوتا ہیں، اور بیرونی ملکوں سے ایک بڑی تعداد یہاں لطف و اندوز کےلیے آتی ہے۔
ہر طرح سے خوشحال زندگی بسر کرنے والا یہ جزیرہ، اب اپنے آپ کو مشکلات میں محسوس کررہاہے۔ اس لیے اس نازک وقت میں ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے کہ ان کی حفاظت کے لیے جس طرح سے ہوسکے اپنی آواز کو بلند کریں، خواب غفلت سے بیدار ہوکر دوسرے کے لیے جینا،ان کے تحفظ کے لیےآواز بلند کرنا ، ان کے جان و مال کی حفاظت کرنا یہ سب ہمارے ذمہ داریاں ہیں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہ ابتر حالات ہمارے دہلیز پر قدم رکھیں اور ہمارے ساتھ شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کر کوئی چلنے والا نہ ہوں۔
از قلم:مظفر نظامی ثقافی