معترضہ آیاتِ جہاد
( معنیٰ و مفہوم ، شانِ نزول، پس منظر)
بقلم: بدر الدجیٰ رضوی مصباحی
قسط اول
آیاتِ معترضہ (معترضہ آیاتِ جہاد) کا صحیح معنیٰ و مفہوم پسِ منظر اور شانِ نزول سے پہلے جہاد کا لغوی اور شرعی مفہوم اور اس کی اقسام کی وضاحت بے حد ضروری ہے۔
جھاد: جَھْد سے مشتق ہے جو بہت سے معانی کے لیے موضوع ہے مثلا: مشقت، انتہا، گنجائش، طاقت، انتہائی کوشش۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ مشتق میں ماخذ اشتقاق کا معنیٰ ومفہوم ماخوذ ہوتا ہے لھذا جہاد کے لغوی معنیٰ میں بھی یہ سب معانی ماخوذ ہوں گے اور شرع میں دینِ حق کے فروغ اور اس کی سر بلندی کے لیے انتہائی جد و جہد کا نام "جہاد” ہے جس کی کئی صورتیں ہیں، جہاد ہم زبان سے بھی کرسکتے ہیں اور مال سے بھی کرسکتے ہیں قلم سے بھی کرسکتے ہیں ، اپنے علم سے بھی کرسکتے ہیں اور بوقت ضرورت اپنی جان کو خطرے میں ڈال کربھی کرسکتے ہیں۔ شرع میں جہاد صرف قتل و قتال اور جنگ و جدال کا نام نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر جہاد کا یہی معنیٰ بتا کر وسیم رِضوی جیسے لوگ برادرانِ وطن کے ذہن کو پراگندہ کرنے اور مذہب اسلام کے خلاف غیر اسلامی دنیا کو بڑھکانے کا کام کرتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بوقتِ ضرورت مخصوص شرائط کے ساتھ غیر ذمی کفار سے جنگ کرنے کا نام بھی جہاد ہے، لیکن یہ کہنا کہ "جہاد” صرف اسی معنیٰ میں مستعمل ہے ؛ یہ نفس الامر کے صریح خلاف ہے قرآن و احادیث میں بہت سے مقامات پر اس معنیٰ کے علاوہ دیگر معانی پر جہاد کا اطلاق ہوا ہے مثلا: قرآن مجید کی آیت مبارکہ : وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿6﴾ (العنکبوت، آیت: 6)اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے بیشک اللہ بے پرواہ ہے سارے جہان سے۔ ( کنز الایمان)
اس آیت مبارکہ میں جہاد کا اطلاق متعدد معانی پر ہوا ہے، مثلا: اطاعتِ الٰہی پر، صبر و تحمل ، جہاد بالنفس ، شیطان کی مخالفت اور اعداے دین کے ساتھ جنگ (خزائن العرفان)
اسی طرح قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ: وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَھْدِیَنَّھُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿69﴾ (العنکبوت، آیت: 69)
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے (کنزالایمان)
اس آیت مبارکہ میں مجاہدہ پر جہاد کا اطلاق ہوا ہے یعنی تمام ظاہری اور باطنی اعمال اور عادات و اطوارمیں رضاے الہی کے لیے ہواے نفس اور شیطانی وسوسوں کے خلاف جد و جہد کرنے کا نام جہاد ہے بلکہ احادیث میں اسے جہادِ اکبر کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے صاحبِ تفسیرِ ابی سعود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ” اطلق المجاھدۃ لیعم جھاد الاعادی الظاھرۃ والباطنۃ” ( تفسیر ابی سعود، ج : 7، ص: 48)
اسی طرح قرآن مجید کی آیت مبارکہ : وَّ جَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿41﴾ ( التوبہ، آیت: 41)
اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے ( کنز الایمان)
اس آیت میں اگر ممکن ہو تو مال اور جان دونوں سے اور اگر ممکن نہ ہو تو دونوں میں سے جس سے ممکن ہو اس سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور ایک قول کے مطابق اس آیت میں صرف قسم اول (جھاد بالمال) کا حکم ہے۔ ( تفسیر ابی سعود، ج:4، ص: 67)
اسی طرح حدیث میں ظالم و جابر فرماں روا کے سامنے حق بات کہنے کو افضل الجھاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ” افضل الجھاد کلمۃ عند سلطان جائر”[ شعب الایمان للبیہقی ، ج: 6، ص: 93، الحدیث: 7581، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]
جہاد کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت گزاری پر بھی جہاد کا اطلاق کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : "جَاء رَجُلٌ اِلَی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فاستأذنہ فی الجہاد۔ قَالَ احیٌّ والداک؟ قال: نَعَمْ۔ قَالَ ففیھما فجاھد”[ صحیح البخاری، ص: 733، الحدیث: 3004، کتاب الجھاد و السیر دار الفکر ، بیروت، لبنان]
ایک شخص بارگاہِ رسالت ﷺ میں آیا اور اس نے آپﷺ سے جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے اس سے پوچھا : کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: بس انھیں کی خدمت کر۔
یہاں پر ہم نے صرف چند آیتیں (معترضہ آیاتِ جہاد) اور حدیثیں پیش کی ہیں ورنہ قرآن اور کتبِ احادیث میں بہت سی آیات و احادیث ہیں جن میں جہاد کا اطلاق حرب و ضرب کے علاوہ دیگر معانی پر ہوا ہے اس سے یہ اچھی طرح مبرہن ہوگیا کہ”جھاد” کا لفظ صرف کفار و مشرکین ، یہود و نصارٰی اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ چار حرفی لفظ اپنے آپ میں بڑی وسعت رکھتا ہے۔
اتنی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کی توجہ ان آیات جہاد کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں،جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کی یہ آیات دنیا میں "آتنک”پھیلا رہی ہیں اور دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہیں،لیکن اس سے پہلے ہم یہاں آپ کو یہ بتاتے ہوئے چلیں کہ اعلان نبوت کے آغاز سے لے کر ١٣/سال تک مکۃ المکرمہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے مٹھی بھر جاں نثاروں کے ساتھ وہ ظالمانہ سلوک کیا گیا جس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں کو مسلسل ظلم تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا،حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں رسی ڈال کر مکہ کی گرم پہاڑیوں اور سنگلاخ وادیوں میں گھسیٹا جاتا،دوپہر کے وقت جب کہ سورج انگارے اگل رہا ہوتا انہیں زمین پر لٹا کر سینے پر پتھروں کی وزنی سیلیں رکھ دی جاتیں،مشکیں باندھ کر لاٹھی اور ڈنڈوں سے پیٹا جاتا،دھوپ میں دیر تک بٹھایا جاتا۔حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئلہ دہکا کر آگ پر لٹایا جاتا،ان کی چھاتی پر ایک شخص پیر رکھ کر کھڑا رہتا،تاکہ وہ کروٹ نہ بدل سکیں ،اور اتنی دیر تک لٹایا جاتا کہ بھڑکتے ہوے کوئلے سرد پڑ جاتے۔حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ان کے والدین حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر روزآنہ مشق ستم کیا جاتا،حتی کہ حضرت سمیہ کی اندام نہانے پر نیزہ مار کر انھیں شہید کر دیا گیا،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا چچا چٹائی میں لپیٹ کر الٹا لٹکا دیتا اور نیچے دھواں دیتا تا کہ وہ گھٹ گھٹ کر بے جان ہوجائیں۔حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ان کی ماں نے گھر سے نکال دیا۔صحابہ تو صحابہ خود بانی اسلام بھی ان کے ظلم و تشدد نہیں بچ سکے ،یہاں تک جب حضرت عمر اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اسلام قبول کر لیا تو قریش مکہ کے غیظ و غضب کی آگ اتنی تیز ہوگئی آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ پورے بنی ہاشم کا مقاطعہ کردیا،اس لیے نہیں کہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ درپردہ آپ کی حمایت کر رہے تھے،حتی کہ مجبور ہوکر پورے تین سال تک آپ کو بنی ہاشم کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہونا پڑا،جب قریش کا ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا،تو آپ نے جاں نثاران اسلام کو ہدایت فرمائی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں ،جب وہ حبشہ ہجرت کر گئے تو قریش کا ایک وفد نجاشی کے دربار میں تحفہ اور تحائف لے کر پہنچ گیا،تاکہ گفت و شنید کر کے ان مظلوموں کو وہاں سے بھی نکلوا دیا جائے،یہ اور بات کہ نجاشی نے حضرت سیدنا جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے متاثر ہوکر قریش کے سفیروں کو نہ صرف یہ کہ ناکام واپس کر دیا بلکہ اسلام بھی قبول کرلیا،١٣/سال تک مسلسل ظلم و تشدد کا نشانہ بننے اور انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزرنے کے باوجود صحابہ کرام کو قریش سے نبرد آزما ہونے کے لیے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی،صحابہ کرام بے کسی کے عالم میں جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فریاد کرتے اور ظالموں سے اپنے دفاع کے لیے تلوار اٹھانے کی اجازت طلب کرتے تو آپ فرماتے:”صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا”حتی کہ ایک دن وہ آیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں مدینہ ہجرت کر گئے،پھر یکے بعد دیگرے آپ کے صحابہ نے بھی ہمیشہ کے لیے اپنے وطن مکۃ المکرمہ کو خیرباد کہہ دیا اور وہ بھی مدینہ چلے آے،اتنی دور چلے جانے کے باوجود بھی انھیں ابتدائی دنوں میں سکون سے رہنا میسر نہیں آیا قریش مکہ نے مدینہ کے یہودیوں سے سازباز کرکے مدینہ کی زمین بھی ان پر تنگ کر دی ،مدینۃ المنورہ میں صحابہ کرام کے ابتدائی حالات یہ تھے کہ وہ ہر وقت جنگ جیسی حالت میں رہتے،اور خود کو چوکنا رکھتے کہ نہ جانے کب کدھر سے حملہ ہوجاے اور راتوں کو وہ جگ جگ کر پہرے دیتے اور کڑی نگرانی رکھتے ،حتی کہ قدرت کو ان پر ترس آہی گیااور سورۂ حج کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی جس میں فدیان اسلام کو پہلی بار کفارو مشرکین مکہ کے ساتھ اپنے دفاع میں جہاد کی اجازت دی گئی:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْر. (الحج/۳۹)
پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ (کنزالایمان)
اس آیت سے پہلے دس بیس نہیں بلکہ ستر سے زیادہ آیات ایسی نازل ہوئی ہیں جن میں صحابۂ کرام کو ظالموں سے قتال کرنے سے روک دیا گیا تھا ، صحابۂ کرام خون سے لہو لہان پٹے پٹائے جب بھی سرکار علیہ الصلاۃ والسلام سے فریاد کرتے تو سرکار یہی جواب دیتے: "اصبروا فانی لم أومر بالقتال” تم صبر کرو کیوں کہ مجھے قتال کا حکم نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے: کان المشرکون یؤوذونھم و کانوا یاتونہ ﷺ بین مضروب و مشجوح و یتظلون الیہ فیقولﷺ لھم: اصبروا فانی لم اومر بالقتال حتیٰ ھاجروا فانزلت و ھی اول آیۃ نزلت فی القتال بعد مانھی عنہ نیف و سبعین آیۃ (تفسیر ابی سعود، ج: 6، ص: 108)
اس کے ما بعد آیت: 40 میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مظلومیت کو بھی آشکارا فرمادیا کہ یہ لوگ ناحق اپنے گھروں سے نکالے گئے ان کا اگر کوئی جرم تھا تو صرف یہ جرم تھا کہ یہ لوگ اپنے رب کی ربوبیت کا اعتراف کرتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے یہ لوگ کہتے تھے ” ربنا اللہ” ہمارا رب اللہ ہے اور اس آیت میں متصلا بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو دفاعی جنگ کی اجازت دی اس کی وجہ بھی بیان کردی کہ اگر اللہ آدمیوں کو ایک دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو روئے زمیں پر کوئی بھی ایسا عبادت خانہ باقی نھیں بچتا جس میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے۔
(معترضہ آیاتِ جہاد)جاری۔۔۔