مذہب اور اردو زبان حالت زار میں

مذہب اور اردو زبان حالت زار میں ایک المیہ

Table of Contents

مذہب اور اردو زبان حالت زار میں ایک المیہ

زوال اردو کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ آج کل اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ میرا بیٹا کچھ جانے نہ جانے سہی ؛ حتی کہ کلمہ توحید و رسالت اور اسلام کے بنیادی عقائد و ونظریات ، قرآن و سنت کے مرتبہ اور بقدر ضرورت آیات کا حفظ وضبط وغیرہ بھی نہ جانے اور سیکھے چلے گا ، بس! ایک خواب اور سب سے بڑی ترقی انھیں جو سوجھتی ونظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ………. ! میرا بچہ؛
” انگریزی ضرور سیکھ لے اور بول لے ” ـ

اور صبح صبح اٹھتے ہی زبان زد ہو” گڈ مارننگ” ، گھر والے بیٹا: ” واٹر ” لے کر منھ دُھل لو یا واش کر لو ، "ٹوتھ پیسٹ "بھی لینا وغیرہ وغیرہ اور تیار ہو جاوـ جب کوئی عورت ناز و نَخرے سے بولتی ہے:” اچھے بچے پانی اور منجن نہیں بولتے بلکہ واٹر اور ٹوتھ پیسٹ بولتے ہیں ” قسم سے میرا تو خون کھول جاتا ہے ـ

بچہ تیار ہوکر گھر سے اسکول جاتے وقت کہتا ہے ” بائے” اور والدین بھی ہنستے اور مست و مگن ہو کر ” بائے بائے ” بولتے ہیں ـ ( شاید اب ” ہی ” ہائے بھی عروج پر ہیں مخصوص میدان میں یا کلیہ طور پر اور والدین کی جگہ پیرینٹس)

بچہ کالج پہونچتے ہی اولاً ” گیٹ مین ” لفظ کا استعمال پھر ” می آئی کم ان سر؟ ” ویل کم وغیرہ ـ ہم سبق سے ملتے ہی گڈ مارننگ ، دوپہر ہوتے ہی ” بریک فاسٹ ” اور شام کو ” گڈ یوننگ ” یوں ہی محترم المقام شخصیت اور مربی و استاد گرامی کے لئے آداب کے کلمات صاحب اور صاحبہ کی جگہ ” سر ” اور” میڈم ” جیسے لفظ نے لے لی اور رات کو ” گڈ نائٹ ” وغیرہ وغیرہ الفاظ و مرکب جملے ، یوں تو ہیں بہت کچھ مگر تقریب فہم کے لئے بس یہی کافی ہے ـ

اور یہی لوگ ……….. صبح بخیر ، پانی ، منجن، برش ، مسواک ، داتن ( برش انگریزی زبان سے ماخوذ ہے ، مسواک عربی زبان سے اور داتن سنسکرت سے ـ تینوں الفاظ اردو میں مستعمل ہیں) اللہ حافظ ، خدا حافظ ، والسلام ، الوداع الوداع ، چوکیدار ، ملازم ، نگہبان ، محافظ ، پاسبان ، اجازت مرحمت فرمائیں، استقبال ، خیر مقدم ، ناشتہ ، مساء الخیر ، جناب آغا ، عزت مآب ، صاحب ، صاحبہ ، قبلہ وقار ، اُستانیہ اور شب بخیر وغیرہ وغیرہ لفظ اور مرکب جملے بولنا مجھے لگتا ہے کہ ننگ و عار کا باعث سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں اور نہ ہی یہ اردو کے کی ترقی ہے ـ بس مغربیت و تھذیب مغرب کی للک کہہ سکتے ہیں جو ایسے لوگوں کی نس اور دل ودماغ میں دوڑ رہی ہیں ـ

ہاں! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ معاشرہ ، حالات ، دور ، تقاضوں اور مقام کا لحاظ بھی ضروری ہے مگر یہ بھی یاد رہے جس طرح اور زبان سیکھنا اور سکھانا ضروری ہے وہیں اپنی زبان و شناخت کو باقی رکھنا اور اس سے بھی متعارف کرانا اور استعمال کرنا و ترغیب دینا از حد ضروری ہے ـ

آئیے اب تربیت اولاد و طالب علم کے بعد ، عوامی بازار میں واقع کھانے کے مسکن پر سرسری طور پر غور کریں ……. مطعم ، قہوہ خانہ وغیرہ کے مقام کو تو "ریستوران” اور "کینٹین ” نے لے لی مگر عجب حیرت ہے اور سوال بھی ( اس پر کہ زوال صرف اردو کا ہی؛ اور کیوں؟؟ )کہ اب بھی ” ڈھابا” ہندی لفظ اپنی بقا کے ساتھ مزید عروج پر ہے اکثر شاہراہ پر ڈھابا ملتا ہے ـ
اور ہوٹل جو پہلے کم سنتے تھے موجودہ وقت میں ہر ایک کی زبان پر زبان زد ہو چکا ہے اور ہماری قوم میں اکثر لوگ اب مطعم اور قہوہ کو کسی دوسری دنیا یا عجائب خانہ کے الفاظ سمجھتے ہیں ـ

رونا یہ ہے کہ گہوارہ علم و ادب ریاست اتر پردیش لکھنؤ جیسی جگہ جہاں کی اردو اور بولنے والے کی مٹھاس کی مثال دی جاتی تھی اور ہے یہاں پر بھی ….. قہوہ اور مطعم کم ہی ملتے ہیں ( ناقص معلومات پر یہ کہہ رہا ہوں حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے) وہیں ریستوران اور کینٹین شاہراہ کے علاوہ گلی گلی میں بھی آباد وعام ہیں ـ

لکھنؤ کی مشہور دکان جس کا اصل نام راقم کو نہیں معلوم ؛ ہاں! اتنا جانتا ہوں ” ٹنڈے کبابے ” کے نام سے مشہور ہے اور یہی سنا ہوں یہاں پر لذیذ و مسالے دار اور شاہی بریانی ، کلیجی ، گوشت اور کباب آہو وغیرہ ملتے ہیں …….بیان کیا جاتا ہے کہ” گاہک ” ( لفظ گاہک سنسکرت سے ماخوذ اردو میں مستعمل و عام ہے ) لائن لگا کر اپنی خواہش کے مطابق اشیاء لذیذہ خریدتے ہیں ـ

بتاتا چلوں کہ ” چاول” اور "بریانی” جیسا شاہی لفظ بھی اب تیزی سے بدل رہا ہے جو چاول کم ” رائس ” زیادہ ہو چلا ہے جدید اردو اسکالر اور ماڈرن مولوی بھی اب اپنے بچوں کو چاول کم رائس زیادہ سکھاتے ہیں یہ ابڈیٹ شروع ہے ـ جیسے چکن رائس، مٹن رائس ، انڈا رائس ( حالات بتاتے ہیں کہ: جدید مفکریں کی جانب سے جلد ہی” اِگ رائس” ہو سکتا ہے نیو ورزن &ابڈیٹ کے پیش نظر ) پَنیر و پُٹیٹو رائس وغیرہ ـ

وہیں عام بول چال کے الفاظ پر غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ سیر و تفریح اور نزہت وغیرہ کی جگہ "پکنک "؛
شکریہ و جزاک اللہ وغیرہ کی جگہ ” تَھینک یو”؛
معاف دارید اور معذرت خواں وغیرہ کی جگہ” سوری ” و دگر مقامات کی جگہ الگ الگ اچھے خاصے اردو کے حسن صوری ومعنوی کی بہترین مثال اور مثالی الفاظ پر دگر بلخصوص انگریزی کی چھاپ ” چڑھ ” رہی ہے ـ یہ ہے زوال اردو کی مختصر و سرسری کہانی مزید وقت اور ضرورت پر ملتے رہیں گے ـ خوش رہیں شاد رہیں ـ

سبحانی ہندی مصباحی

 

 معترضہ آیاتِ جہاد قسط اول یہاں پڑھیں

شیئر کیجیے

Leave a comment