مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار شرم ناک حرکت

مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار شرم ناک حرکت

Table of Contents

مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار شرم ناک حرکت

دار العلوم، ضیاء العلوم خیرآباد ، مئو ، یوپی

آج کل مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کا ویڈیو بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہورہا ہے اور یہ اپنے آپ میں نہایت ہی شرمناک بات ہے کہ مسلم گھرانے کی پروردہ دخترانِ اسلام مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی رچانے کے بجاے اپنے دین و ایمان کو خطرے میں ڈال کر غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار ہورہی ہیں، اس طرح وہ اپنی عزت و آبرو کو بھی نیلام کر رہی ہیں اور اپنے گھر، خاندان بلکہ پورے اسلامی معاشرے کی عزت اور وقار کو بھی خاک میں ملارہی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار شرم ناک حرکت ہے۔
مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ حلال ذرائع کے ہوتے ہوئے حرام ذرائع کو بروے کار لاکر شادی کرنے اور کرانے کا انجام دنیا میں بھی نہایت خطرناک اور بھیانک ہے اور آخرت میں بھی اس کی سزا نہایت سخت ہے، ایک مسلمان کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت سب سے اہم اور ضروری یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں؛ جو چند روزہ ہے، اپنے دین و ایمان کے ساتھ زندگی گزارے اور اسی پر اس کا خاتمہ بھی ہو اور وہ اپنی تمام عائلی (ازدواجی) اور غیر عائلی مسائل و معاملات کو اسلامی دائرے میں رہ کر انجام دے، مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ نکاح اللہ تعالیٰ نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے اور نہایت نفیس پیرایۂ بیان میں یہ سمجھایا ہے کہ بندۂ مومن کا مومنہ عورت کے ساتھ نکاح مشرکہ کے ساتھ نکاح سے بہتر ہے، اسی طرح مومنہ عورت کا مومن مرد کے ساتھ نکاح مشرک کے ساتھ نکاح سے بہتر ہے اور یہ بہتری دنیا اور آخرت ہر لحاظ سے ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ” [ البقرہ۔ ۲۲۱ ]
اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو ، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔( کنز الایمان)
اس آیتِ مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ بعدِ ہجرت حضور ﷺ نے حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کو اس غرض سے مکۃ المکرمہ روانہ فرمایا کہ وہ وہاں سے بچے کھچے مسلمانوں کو نکال کر مدینہ لے آئیں۔ آپ حکمِ رسالت پر عمل کرتے ہوئے مکۃ المکرمہ جا پہنچے وہاں عناق نامی عورت رہا کرتی تھی؛ جسے قبلِ اسلام آپ محبوب رکھتے تھے۔ جب اسے مکہ میں آپ کی آمد کا پتا چلا تو وہ آپ کے پاس آئی اور خلوت کی طالب ہوئی ،آپ نے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ : اب اسلام ہمارے اور تمھارے درمیان حائل ہے ، اس نے کہا: کیا تم مجھ سے نکاح کرسکتے ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں! لیکن میں اس معاملے کو بارگاہِ رسالت ﷺ میں پیش کروں گا، جیسا حکم صادر ہوگا ؛ ویسا کروں گا اس وقت یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔ [ تفسیر ابی سعود، ج: 1، ص: 221]
اس آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تک مشرکہ عورت ایمان نہ لے آئے تم اس سے نکاح نہ کرو اسی طرح مسلمہ عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب تک مشرک مرد ایمان نہ لے آئے تم اس سے نکاح نہ کرو۔ اور علیٰ سبیلِ التنزل یہ فرمایا گیا ہے کہ : اگر مسلمان مشرک کے اعتبار سے کم رتبہ بھی ہے جب بھی وہ دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ رتبہ رکھنے والے مشرک یا مشرکہ سے بہتر ہے۔ بلکہ فقہا نے یہ فرمایا ہے کہ : مسلمہ عورت کے نکاح کے جواز کی شرط یہ ہے کہ اس کا ہونے والا شوہر مسلمان ہو بصورتِ دیگر شرعا اس کا نکاح ہی صحیح نہیں ہوگا، جیسا کہ ھدایہ اولین کے حاشیہ میں ہے : "لان اسلام الزوج شرط جوازِ نکاح المسلمۃ”[ ھدایہ اولین ، باب فی الاولیاء والاکفاء ، ص: 300 حاشیہ نمبر : 15]
ظاہر سی بات ہے جب لڑکا مسلمان نہیں ہوگا اور اس سے مسلم لڑکیاں فرار ہوکر شادی رچائیں گی یا ان کے اولیا غیر مسلموں کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہیں گے تو یہ نکاح شرعا باطل اور حرام ہوگا اور جب یہ نکاح حرام ہوگا تو غیر مسلم شوہر کے ساتھ مسلم لڑکی کا اختلاط اور قربت بھی حرام ہوگی، لھذا آزاد خیال مسلم لڑکیاں ہوش کے ناخن لیں اور خود کو حرام کاری اور زنا سے باز رکھیں اور حظِ نفس کے لیے اپنی ہونے والی اولاد کو شرم سار نہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ اسلام سے وابستگی ہی دنیا اور آخرت میں نیک نامی اور خیر و فلاح کا باعث ہے، بہتر ہوگا کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ بالخصوص صحابیات کی سیرت و سوانح کو اپنے لیے نمونہ بنائیں اور اسی کی روشنی میں اپنی زندگی کا فیصلہ کریں۔
حضرت ام سلیم انصاریہ رضی اللہ عنہا نہایت صاحبِ فضیلت ، بہادر اور نامور صحابیہ ہیں اور مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں۔ جب اسلام کی آمد ہوئی تو یہ اسلام لے آئیں اور اپنے شوہر مالک بن نضر کو دعوتِ اسلام دی ؛ جس سے وہ ناراض ہوگئے اور انھیں مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے، وہیں پر ان کا انتقال ہوگیا، پھر حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے؛ انھوں نے حضرت ام سلیم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، حضرت ام سلیم نے اس پیغام کو اس شرط سے منظور کیا کہ وہ اسلام لے آئیں، حضرت ابو طلحہ نے اس شرط کو قبول فرمالیا، پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان سے نکاح کیا [ تھذیب التھذیب، ج: 12، ص: 471]
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا یہ نکاح غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ نکاح کے لیے بے تاب مسلم لڑکیوں کے لیے نمونہ ہے، اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں۔
ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جب حرمِ نبوی میں داخل ہوئیں تو ان کے والد حضرت ابو سفیان جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے ؛ بیٹی سے ملاقات کے لیے مدینۃ المنورۃ میں ان کے مکان پر حاضر ہوئے، حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا بستر بچھا ہوا تھا اس پر بیٹھنا چاہا ؛تو بیٹی نے بستر فوراً ہی کھینچ لیا اور اسے تہ کر کنارے رکھ دیا؛ جس پر ابو سفیان غضب ناک ہوگئے ، پوچھا: بیٹی! بستر میرے لائق نہیں ہے یا میں بستر کے لائق نہیں ہوں ؟ بیٹی نے جواب دیا : "یہ اللہ کے رسول کا بستر ہے اور آپ کفر و شرک کی نجاست سے ملوث ہیں، اللہ کے رسول جیسی مقدس ہستی کے بستر پر کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ شخص کو بیٹھنے دوں ؛ یہ میرے لیے ناممکن ہے۔
ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا کفر و شرک سے اس قدر اجتناب اور بیزاری کہ باپ ہونے کے باوجود انھیں اپنے بستر پر بیٹھنے نہیں دیا اور موجودہ دخترانِ اسلام کا یہ شیوہ کہ وہ کفار و مشرکین کے ساتھ نکاح کر رہی ہیں یا نکاح کے لیے پر تول رہی ہیں۔ العیاذ باللہ۔
آج جو تیزی کے ساتھ یہ وبا پھیل رہی ہے ؛ اس کی ذمہ داری سے والدین بچ نہیں سکتے ، اللہ تعالیٰ نے ماں اور باپ پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اخلاق کی کڑی نگرانی کریں اور ان کی کسی بھی کوتاہی ، ضد اور ہٹ دھرمی کو ہرگز نظر انداز نہ کریں بالخصوص وہ اس پر دھیان دیں کہ: ان کی بچیاں کیا کرتی ہیں ؟ کہاں آتی اور جاتی ہیں؟ کس سے یارانہ رکھتی ہیں؟ ان کی سہیلیوں کا کیریکٹر کیا ہے؟ اور سب سے ضروری یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں کسی بھی قسم کا موبائل نہ جانے پائے؛ کیوں کہ یہ زہرِ ہلاہل ہے، جب رگ و پے میں اتر جاتا ہے تو ہلاک کرکے ہی دم لیتا ہے اور بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں، تاکہ وہ حرام و حلال میں تمیز کرسکیں اور والدین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب بچیاں شادی کے قابل ہوجائیں؛ تو انھیں زیادہ دنوں تک گھر نہ بٹھائے رکھیں بلکہ مناسب رشتہ تلاش کر جلد از جلد ان کی شادی کردیں اور رشتہ اگر اجنبی لڑکے کے ساتھ طے ہورہا ہے ؛ تو اس کی آئی. ڈی. دیکھ کر یہ اطمینان کر لیں کہ اس کا دین اور مذہب اسلام ہے یا نہیں ؟ تاکہ وہ کسی بھی طرح کے فریب سے محفوظ رہیں۔

Read More…

امت کی بیٹیوں کے لیے ایک جاگتی صدا

ارتداد کا معنی، حکم ، اسباب اور حل کے طریقے

مسلم لڑکیوں کی غیر مسلموں سے شادی

شیئر کیجیے

Leave a comment